تحریک ا نصاف کے اسیر بانی کی کال پر آمدہ اتوار کو اسلام آباد میں احتجاج کی تیاریوں پرقائدین کے رابطوں اور ممکنہ مذاکرات و ڈیل اور ڈھیل کی تیاریوں کا رنگ غالب ہے جس سے کم از کم ہر کسی کو اس کا اندازہ لگانے میں مشکل کا سامنا ہے کہ احتجاج ہو گا بھی یا قبل ازیںکی طرح اڈیالہ جیل سے آنے والے پیغام پر عین وقت پر کارکنوںکو واپسی کی راہ اختیار کرنے کی ہدایت ملے گی قیادت جس یکسوئی کے ساتھ روابط میں اضافے اور ملاقات در ملاقات کی تصدیق و تردید کے ساتھ مصروف ہے وہاں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کارکنوں کی خاطر خواہ تعداد میں نہ آنے کا احساس دلا کر بھی قائد سے کال کے التواء کی گزارش کی جا سکتی ہے مگر یہ بیرون جیل قیادت کی ناکامی کے ساتھ ساتھ اس کال کی کامیابی کے لئے سخت ہدایات کی بھی پامالی وہ دو دھاری تلوار ہو گی جسے اگر دوسری مرتبہ بھی استعمال کیا گیا اور کارکنوں کے دودھ کی طرح کھولتے جذبات پر دوسری مرتبہ التواء کا ٹھنڈا پانی ڈالا گیا توپھر نقطہ انجماد نزدیک اور جوش پذیری کی منزل دور ہو جائے گی جسے اگر مخالفین کمر ٹوٹنے سے تعبیر نہ بھی کریں تو خمیدہ کمر کو چھپانا بھی ممکن نہیں رہے گاایسے میں احتجاج کی کال جہاں مرکز میں مقیم حکومتی اور طاقتور عناصر کے لئے چیلنج کا باعث ہے جن کی تیاریوں کا پیمانہ دیکھ کر حیرت بھی ہوتی ہے گویا جڑواں شہروں پر کوئی بیرونی یلغار ہو رہی ہو لیکن دوسری جانب اس موقع پربھی اگر قیادت پر مصلحت پسندی غالب آگئی توکارکنوں کو ڈھیل اورڈیل کی افواہوں میں صداقت کا رنگ غالب نظر آئے گا جس کے باعث ان کا حوصلہ پست ہونا فطری امر ہو گا حالات و واقعات اور قرآئن سے لگتا یہی ہے کہ بالاخر معاملات فطری طور پر اسی طرف جائیں گی جو سیاسی مقدمات اور جھگڑوں کا حتمی رخ ہوا کرتا ہے جس کے بعد پہلے حالات میں تبدیلی آئی ہے اور بعد میں حکومت و قیادت بدل جاتی ہے تحریک انصاف ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں ایک طرف اس کے پرجوش کارکنوں کا عزم ہے اور دوسری جانب مصلحت کی طرف مائل قیادت ایسے میں اڈیالہ سے آنے والا حتمی فیصلہ ہی ہوائوں کا رخ طے کرے گاکہ تحریک انصاف کے جذباتی کارکنوں کی جیت ہوتی ہے یا پھر ان کے جذبات پر مصلحت کی دبیز ٹھنڈی چادر ڈال دی جاتی ہے فیصلہ بس بہت جلد بلکہ کسی بھی لمحے ۔