پشاور کے علاقہ خزانہ میں مخبوط الحواس شخص کی جانب سے گھریلو جھگڑے کے دوران قرآن مجید کی مبینہ بے حرمتی کے واقعے پر ہجوم کی جانب سے جس ردعمل کا مظارہ کیا گیا وہ مناسب نہ تھا الزام لگانے والا کوئی اور نہیں ملزم کا والد ہی تھا اس طرح کے موقع پر جذبات کی انگیخت اور جذباتی ہونا فطری امر ہے مگر اس کا حدود اور دائرہ کارمیں رہنا اور اس کو آگ لگانے کا ذریعہ بنانے کی بجائے تحمل برداشت کا مظاہرہ کرنا بھی کتاب اللہ ہی کی تعلیمات کاتقاضا ہے مبینہ ملزم کو پولیس کی جانب سے حراست میں لئے جانے کے بعد والے حرکات وافعال کی گنجائش نہ تھی بہرحال اس حوالے سے گرفتاریاں اور قانون کے مطابق کارروائی کاعمل جاری ہے قابل توجہ امر یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات جب بھی اورجہاں بھی ہوتے ہیں قانون کو حرکت میں آنے اور اسے اپنا کام کرنے دینے کی بجائے ہجوم فیصلہ کرکے سزا بھی دینے کا اقدام کرنے کی کوشش میں ہوتاہے ۔جس کے دوران ناخوشگوار واقعات کے ساتھ ساتھ ظلم کے درجے کی ناانصافی بھی ہوتی ہے اور ایسے لوگوں کی جان و مال کونقصان پہنچایا جاتا ہے جس کا اس واقعے یا اس کے کرداروں سے دور دور کابھی واسطہ اور تعلق نہیں ہوتا کم سے کم بھی سڑکوں اور کاروبار کی بندش تو ہوتی ہے جہاں تک اس طرح کے ملزمان کے خلاف عدالتوں میں مقدمات میں تاخیر اور ان کے بچ نکلنے کے خدشات کی صورت میں ہونے والے واقعات کا تعلق ہے اس طرح کی صورتحال میں تفتیش اورنظام عدل پر عدم اعتماد کی گجائش ہوتی ہے مگر ابتداء ہی اس سے کرنے کا کوئی جواز نہیں محولہ واقعے میں زیادہ ناخوشگوار واقعہ نہ ہونا اور پولیس کی بروقت کارروائی احسن ہے آئندہ اس طرح کے ممکنہ واقعات کے کسی موقع پر عوام کا ردعمل کیا ہونا چاہئے اس حوالے سے علمائے کرام کو ایک مرتبہ پھر اپنے معتقدین اور نمازی حضرات کو اسلامی تعلیمات کی یاددہانی کرانی چاہئے تاکہ جو بھی ردعمل ظاہر کیا جائے اس میں جذباتیت اور معاشرے کی روایتی انتہا پسندی کی بجائے اسلامی تعلیمات پر عملدرآمد غالب ہواور ایسے واقعات سے اجتناب ہو جس سے مبینہ ملزم پولیس اور مفاد عامہ کی حق تلفی ہو۔