کیا تحریک انصاف انقلاب لا سکے گی؟

بانی تحریک انصاف نے چوبیس نومبر کو باالآخر ملک گیر احتجاج کی کال دے دی ہے۔ چوری شدہ منیڈیٹ کو واپس کرنے، سیاسی قیدیوں کی رہائی اور ملک میں آئین و قانون کی بالادستی کے لئے تحریک انصاف نے سڑکوں پر آنے کا اعلان کرتے ہوئے کارکنوں سے کہاہے کہ وہ اس بار پوری تیاری کے ساتھ میدان میں نکلیں۔ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ نے اپنے گھر والوں کو پہلے ہی خبرار کیا ہے کہ اگر وہ اس احتجاج کے بعد گھر واپس نہ آئے تو ان کے جنازے پڑھ لئے جائیں۔ جس کے بعد پشاور میں پارٹی اجلاس میں الجہاد، الجہاد کے نعرے بھی لگائے گئے۔ بشری بی بی کی ایک آڈیو ٹیپ میں منتخب نمائندوں سے کہا گیا ہے کہ اس بار ان کی کسی بھی قسم کی معذرت قبول نہیں کی جائیگی۔ صوبائی اسمبلی کے ممبران سے پانچ پانچ ہزار جبکہ قومی اسمبلی کے اراکین سے دس دس ہزار کارکنان کو لانے کی ہدایت کی گئی ہے اور ساتھ ہی انہیں یہ تنبیہ بھی دی جاچکی ہے کہ ناکامی کی صورت میں ان کارکنان کو آئیندہ پارٹی ٹکٹ کیلئے اہل نہیں سمجھا جائیگا۔ دوسری طرف حکومت نے اس احتجاج کو بھر پور طریقے سے روکنے کا اعلان کیا ہے۔ اس مقصد کیلئے دارلحکومت اسلام آباد میں دوماہ کیلئے دفعہ لگانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے تحریک انصاف کے پارٹی اجلاس میں لگائے جانے والے الجہاد کے نعروں کو پارٹی کی جانب سے ریاستی اداروں کے خلاف کھلم کھلا بغاوت سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کسی سیاسی پارٹی کی جانب سے اپنے مطالبات کے حق میں اپنے سیاسی جدوجہد میں تیزی لانے کو فساد سے تعبیر کرنا کسی بھی طرح سے ایک سیاسی اور جمہوری رویہ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کسی سیاسی جماعت کیلئے سیاسی جدو جہد کے سارے راستے مسدود کئے جائیں تو انکے پاس سڑکوں پر آنے کے علاوہ اور کونسا آپشن باقی رہتا ہے؟ لیکن دوسری جانب اس سے بھی بڑا سوال تحریک انصاف کی سیاسی قیادت کے سامنے یہ ہے کہ کیا وہ اس احتجاج کو اس حد تک لے جانے میں کامیاب ہوسکے گی کہ اپنے سارے اہداف حاصل کرسکیں؟ ملک میں اس سے پہلے بھی ایسی کوئی مثال موجود نہیں ہے کہ عوام کو سڑکوں پر نکال کر حکومت کو مجبور کیا گیا ہو کہ وہ انکے مطالبات کو مانتے ہوئے حکومت سے دستبرداری کا اعلان کریں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں اپنے کارکنان کی تربیت مطلوبہ معیارات کے مطابق کرتی ہیں نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کارکنان میں ہمیشہ نظم و ضبط کا فقدان ہوتا ہے اور ایک منظم جماعت کے کارکنان سے زیادہ ایک سیاسی بھیڑ نظر آتی ہے۔ تحریک انصاف نے عوام سے جب جب بھی ووٹ لیا ہے، تبدیلی کے نام پر لیا ہے لیکن بدقسمتی سے ملک میں مطلوبہ تبدیلی لانے کیلئے اپنے کارکنان کو نظم و ضبط کی تربیت دینے کے لئے کبھی کوئی خاص منصوبہ بندی نہیں کی۔ آج تک دنیا میں جتنے بھی انقلابات آئے ہیں، چاہے انقلاب فرانس ہو یا انقلاب روس یا اسے بڑھ کر دنیا کا وہ عظیم انقلاب، جسے ہمارے پیغمبر حضرت محمدۖ نے برپا کیا، ان سارے انقلابات میں کئی قدریں مشترک ہیں۔ انہی مراحل سے نکل کر ایک انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوسکتی ہے۔ سب سے پہلے ایک جماعت کوئی ایسا نظریہ لے کر آتی ہے جو کسی استحصالی ٹولے اور اس وقت کے اشرافیہ کے خلاف عوام کے ایک طبقے کے لئے خصوصی دلکشی اور دلچسپی کا باعث بنے جو ظلم و جبرکی بھینٹ چڑھی اس استحصالی نظام سے نجات چاہتی ہو۔ اس طبقے میں یا تو جوشیلے جوان ہوتے ہیں یا ظلم کی چکی میں پسے عوام کا وہ طبقہ جو موجودہ استحصالی نظام سے نجات کیلئے کسی نجات دہندہ کی تلاش میں ہوں۔ پھر وہ نظریہ ایک منظم انداز میں عوام کے سامنے پیش کیا جا تا ہے اور جو طبقہ اس پیغام کو قبول کرتے ہیں ، اگلے مرحلے میں ان کو ایک جماعت کی شکل میں منظم کیا جاتا ہے اور پھر سمع و طاعت کی بنیاد پر انکی ایسی تربیت کی جاتی ہے کہ وہ اپنے لیڈر کے ایک حکم پر مرمٹنے کو تیار ہوتے ہیں۔ جوں جون انکی تعداد بڑھتی جاتی ہے، انکے خلاف اس وقت کے مراعات یافتہ طبقے کی جانب سے مزاحمت بڑھتی جاتی ہے۔ یہ مزاحمت تمسخر، واستہزاء سے لے کر جسمانی تشدد تک ہوسکتی ہے لیکن اس دوران جماعت کی مطلوبہ تعداد نہ ہونے کے باعث اس جماعت کے کارکنان کو صبر محض سے کام لینا پڑتا ہے اور جب انکی ایک معتدبہ تعداد تیار ہوجاتی ہے تو پھر اس جماعت کا اگلا قدم سامنے آکر حکومت وقت کو اپنے مطالبات کے حق میں چیلنج کرنا ہوتا ہے جس کا آخری مرحلہ مسلح تصادم کا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں مذکورہ جماعت کا یا تو دھڑن تختہ ہوتا ہے یا اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔تحریک انصاف کی سیاسی قیادت سے گزارش ہے کہ پہلے اپنے کارکنان کو مطلوبہ معیارات اور صفات سے متصف کردیں، انکو نظم و ضبط کا پابند بنائیں،ان کی اخلاقی تربیت کریں اور پھر میدان میں اتاریں۔
تو خاک میں مل اور آگ میں جل، جب خشت بنے تب کام چلے
ان خام دلوں کے عنصر پر بنیاد نہ رکھ، تعمیر نہ کر

مزید پڑھیں:  اے پی سی اور پائیدار امن