دیکھا جائے تو نصاب سے زیادہ مسائل تو نظام میں ہیں ۔ ہمارے ملک میں بی ایس نظام گوں نہ گوں مسائل کا شکار ہے۔ اس نظام کے ذریعے جہاں طلبہ کو عموماً چھ مہینے بعد ایک سمسٹر سے دوسرے سمسٹر میں پروموٹ کیا جا رہا ہے وہاں اس کے خاطر خواہ نقصانات بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ بی ایس نظام سالانہ نظام کے مقابلے میں کچھ حد تک تو مفید ہوسکتا ہے لیکن اس کے مطلوبہ ثمرات دیکھنے کو نہیں مل رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس چار سالہ تعلیمی سفر کے دوران طلبہ ان متوقع امیدوں پر پورا ہی نہیں اترتے جو ہم ان سے لگائے بیٹھے ہوتے ہیں ۔ لیکچر کو دہراتے ہیں اور نہ ہی اس کے تفہیم و تجزیے کی زحمت گوارا کرتے ہیں۔ اس نظام کے تحت ایک سمسٹر مجموعی طور پر48 تدریسی گھنٹوں اور18ہفتوں پر مشتمل ہوتا ہے جن میں سے سولہ ہفتے پڑھانے اور باقی دو ہفتے وسط میقات(مڈٹرم)اور آخری میقات (فائنل ٹرم)کے لیے مختص ہوتے ہیں پہلی بات تو یہ ہے کہ نصاب کے مطابق یہ دورانیہ نہایت مختصر ہوتا ہے پھر تدریس کے علاوہ بھی بہت سارے کام ہوتے ہیں مثلا اسائمنٹ تیار کرنا ، کوئز، پیشکش وغیرہ مزید برآں یہ بھی ناممکن ہے کہ تمام مجوزہ تب طلبہ کی دسترس میں ہو اور وہ ان کا مطالعہ بھی کریں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو اتنے مختصر دورانیے میں ان سب کا حصول ناممکن ہے اور اگر تگ و دو کے بعد مل بھی جائیں تو پڑھے کے لیے وقت کہاں ہے؟ لہذا طلبہ کتاب کی جگہ یا تو ویکیپڈیا کا رخ کرتے ہیں یا اے آئی اور چیٹ جی پی ٹی جیسے برقی اساتذہ کا سہارا لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ دوسری طرف طلبہ کو عموما48 کی جگہ زیادہ سے زیادہ 32 یا 35 تک تدریسی گھنٹے میسر آجاتے ہیں۔کچھ کالجوں میں تو اندھیرنگری چوپٹ راجہ والا معاملہ ہے۔ اوپر سے پروانہ آجاتاہے کہ فلاں فلاں مضامین میں بی ایس شروع کریں ۔ پالیسی بنالی جاتی ہے کہ اتنے اساتذہ کا ہونا بھی ضروری ہے۔ پروگرام شروع کروا دیا جاتا ہے کہ اگلے سمسٹر میں استاد کے تبادلے کا حکم صادر ہو جاتا ہے۔ کالجز میں بی ایس کی روح کے خلاف فائنل امتحان کا اختیار ملحقہ یونیورسٹی کے پاس ہوتا ہے۔ مڈ کے نمبرات چونکہ کم ہوتے ہیں لہذا وہ کالج کے اساتذہ کے ہاتھ میں ہوتے ہیں اور فائنل کے زیادہ نمبرات یونیورسٹی کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ یونیورسٹی میں اساتذہ اپنی مرضی سے پڑھائے گئے نصاب میں کمی بیشی کر کے امتحان لیتے ہیں جس میں وہ اپنے طلبہ کو شاذ و نادر ہی فیل ہونے دیتے ہیں جبکہ کالج کے طلبہ مکمل نصاب پڑھنے کے باوجود بھی فائنل امتحان میں فیل ہو جاتے ہیں کیونکہ سوالات آوٹ آف کورس ہوتے ہیں جس سے ان کی حوصلہ شکنی ہوتی ہیں اور وہ ہمت ہار جاتے ہیں لیکن اس کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ وہاں تو کم از کم کورس مکمل پڑھایا جاتا ہے کیونکہ پرچہ تو کہیں سے بھی آسکتا ہے لیکن وہاں امتحان کے لیے تیاری کرنا ، پھر امتحان لینا اور اس کا رزلٹ تیار کرنا آسان کام نہیں ۔ مثال کے طور پر سالانہ امتحان اگر پانچ مضامین میں لیا جاتا تھا سال میں ایک بار زیادہ سے زیادہ پچاس پرچے ہوگئے لیکن بی ایس میں اگر کالج میں دس ڈسپلن ہیں تو ہر ڈسپلن میں ایک وقت میں چار سمسٹر ہوتے ہیں اور ہر سمسٹر کے کم از کم پانچ پرچے ہوتے ہیں ۔ اس لیے تین تین اور چار چار سمسٹر کے نتائج ابھی معلق ہوتے ہیں اور طلبہ اگلے سمسٹر میں پڑھ رہے ہوتے ہیں جوہر وقت اس خوف میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ممکن ہے کہ میں پہلے سمسٹر میں ڈراپ آٹ ہوچکا ہوں جبکہ بیٹھا چوتھے سمسٹر میں ہوں اب اس صورتحال میں وہ کس لگن سے پڑھے گا یہ سب بہتر جانتے ہیں ۔ اس چار سالہ دورانیے میں طلبہ کو مختلف النوع کورسز پڑھائے جاتے ہیں خواہ ان مضامین میں طلبہ کی دلچسپی ہو یا نہ ہو چار و نا چار ہر طالب علم کو وہ مضامین پڑھنے ہی ہوتے ہیں ۔ پھر ابھی کچھ پڑھا بھی نہیں ہوتا کہ مڈ ٹرم امتحان سر پر آجاتا ہے ۔ جب ایچ ای سی نے فنڈنگ پر پابندی لگائی اورکالج اور یونیورسٹیوں کو اللہ کے سہارے چھوڑ کر خیر باد کہہ دیا تو یونیورسٹیز کے ساتھ ملحقہ کالجز میں دو سالہ اے ڈی پروگرام ختم کر کے چار سالہ بی ایس پروگرام کا آغاز کر دیا گیا۔ اب یہ ملحقہ کالجز ان طلبہ کے لیے سنہری موقع فراہم کرنے میں مصروف عمل دکھائی دے رہے ہیں جو یونیورسٹیز کی بھاری فیس ادا نہیں کر سکتے ۔ کیونکہ اکثر قابلیت ہونے کے باوجود بھی طالبات کو یونیورسٹی جانے کی اجازت نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ اعلی تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ جاتی ہیں۔ اس معاہدے کے عوض دو سالہ ایم اے ڈگری کو جو اس سے کئی درجہ بہتر تھی قربانی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ۔ اس کے باوجود کہ بی ایس میں طلبہ کو میرٹ کی بنیاد پر داخلہ دے کر مقررہ نشستیں تو بھردی جاتی ہیں لیکن ان میں بیشتر وہ طلبہ ہوتے ہیں جو دوسرے تیسرے سمسٹر تک پہنچ ہی نہیں پاتے اور اکثر ڈراپ آٹ ہو جاتے ہیں۔ اگر داخلہ لینے والے امیدواروں اور فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ کا آپس میں موازنہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ڈگری ادھوری چھوڑ کر جانے کی ایک وجہ کالجز میں مطلوبہ سہولیات کا فقدان بھی ہے کیونکہ اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جو سہولیات یونیورسٹی کے طلبہ کو ملتی ہے کالج کے طلبہ کو اس کا عشر عشیر بھی فراہم نہیں ہوتا۔ پھر ایک اور بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یونیورسٹی اور کالج کے ماحول میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے جس کی بنا پر طلبہ کے اندر خود اعتمادی پیدا نہیں ہوتی نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ طلبہ کو محنت اور لگن کی عادت ڈال کر تعلیمی سفر کی طرف راغب کیا جائے ۔ آج کے نوجوان شارٹ کٹ کے متلاشی ہیں جس کا خمیازہ انہیں پوری زندگی بھگتنا پڑتا ہے ۔ جب وہ ان تعلیمی اداروں سے نکل کر اپنی عمل زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو ان میں مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی اور یہ نئی نسل فرسٹریشن کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس وقت اشد ضرورت ہے کہ حکومت ملک میں یکساں نظام تعلیم لاگو کریں ۔ کالج ہو یا یونیورسٹی سب کو اس پر عمل پیرا ہونے کا پابند بنایا جائے۔ جس نسل نو نے آگے ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنی ہے ان کی ذہنی سطح اور رجحانات کو مدنظر رکھ کر تعلیمی پالیسی ترتیب دی جائے ۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ انہیں پیشہ ورانہ مہارتیں بھی سکھائی جائیں تاکہ بی ایس کرنے کے بعد ان کے پاس روزگار کے مواقع ہاتھ آئیں ، وہ اپنا بوجھ خود اٹھانے کے قابل ہو سکیں اور معاشرے کا ایک مفید فرد بن سکیں ۔