آنکھیں موند ، کنارے بیٹھ ، من کے رکھو بند کواڑ

ویسے تو ان کے اکثر کام ایسے ہی ہوتے ہیں جن پر وقت گزرنے کے بعد ان کو یوٹرن لینے پر مجبور ہونا پڑتا ہے مگر اب کی بار معاملہ ذرا سا مختلف ہے اور جو ایک جوشیلے رہنماء نے فرط جوش و جذبہ میں بیان دے دیا ہے تو لگتا ہے کہ موصوف کو ایک بار پھرپارٹی سے ”اخراج” کی صورتحال کا سامنا کرناپڑے گا۔ اس سے پہلے بھی پارٹی کی ان کی رکنیت ، پارٹی کے بانی کی ترجمانی اور دیگر مختلف معاملات کے حوالے سے ان کو بقول شاعر بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے کی کیفیت سے گزرنا پڑا ہے تاہم وہ جوکہتے ہیں کہ ”عادی بلا بسم اللہ پر جان نہیں چھوڑتی” تو ہر بار یہ پارٹی کے اندر کسی نہ کیس طور جگہ بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تاہم اب کی بار موصوف نے پارٹی پر جو”مبینہ خود کش حملہ” فرمایا ہے اس کے بعد مشہور بھارتی فلم شعلے کے ایک بہت ہی مشہور اور مقبول مکالمے کی طرح ان سے پارٹی کے حلقے پوچھنے کا حق تو رکھتے ہیں کہ ”تیراکیا بنے گاکالا؟” کیونکہ انہوں نے اپنے تازہ بیان سے پارٹی کے پرخچے اڑا کر رکھ دیئے ہیں موصوف نے پارٹی کا رکردگی پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ ملتا تو خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت نہ بنتی”۔ ویسے لگے ہاتھوں وہ اس حقیقت سے بھی پردہ ہٹا دیتے کہ جس طرح دیگر سیاسی جماعتیں انتخابات کے بعد سے ہی یہ الزامات لگا رہے ہیں کہ پارٹی کی کامیابی میں کئی عوامل کارفرما رہے یہں جن میں مبینہ طور پر فیض حمید نیٹ ورک بشمول وہ قوتیں جن کو لا کر اس صوبے میں بسانے کی غلط پالیسی کا بھی ہاتھ ہے اور عوام کا مینڈیٹ”چوری” کرکے جیتنے والوں کو ”تگڑم بازی” سے ہرا کر یہاں اصل ہارنے والوں کو اقتدار سونپ دیاگیا جس کے نتائج آج صوبے کے عوام بھگت رہے ہیں بہرحال دیکھتے ہیں کہ اس ”نازک” صورتحال سے نمٹنے کے لئے الزام لگانے والا پارٹی رہنما اپنے بانی چیئرمین کی طرح خود ہی”یوٹرن” لیتے ہوئے اس تلخ حقیقت کو الفاظ کے گورکھ دھندے میںالجھا کر اس بات سے انکار کرتا ہے کہ اس کی بات کو ”سیاق وسباق” سے الگ کرکے میڈیا پر طوفان برپا کیا گیا اور یہ کہ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں تھا جیسا کہ سمجھا جارہا ہے یا پھر پارٹی کی جانب سے اس پر ایک بار پھر ”لعن طعن” کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ موصوف نے بلا سوچے سمجھے بیان دے دیا ہے اس لئے اسے پارٹی کی جانب سے شوکاز نوٹس جاری کیا جارہا ہے وغیرہ وغیرہ ممکن ہے کہ نوٹس ملنے کے بعد بقول محسن احسان اسے یہ نہ کہنا پڑ جائے کہ
صبح سے شام ہوئی روٹھا ہوا بیٹھا ہوں
کوئی ایسا نہیں آکر جو منالے مجھ کو
اگرچہ پارٹی پر ”الزام” صرف موصوف ہی نے نہیں لگایا بلکہ (تادم تحریر) تازہ تحریک ” خود کش” حملہ تو سابقہ خاتون اول نے بھی کر دیا ہے اگرچہ موصوفہ کے بیان پر پارٹی کے بعض ”لواحقین” بسیار کوشش کے بعد بھی وضاحت دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ موصوفہ خود ہی اپنے بیان کی وضاحت کریں گی جبکہ یہ کہہ کر جان چھڑا رہے ہیں کہ ان کے بیانئے کا پارٹی کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں ہیں مزے کی بات یہ ہے کہ موصوفہ نے پارٹی پر ہر قسم کا تسلط قائم کرکے پارٹی رہنمائوں کو ہدایات جاری کرنا وتیرہ بنا رکھا ہے مگر بانی سمیت ہر پارٹی اہم رہنما یہ دعوے بھی کر رہا ہے کہ موصوفہ کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں گویا سیاست سے تو ان کا تعلق نہیں ہے مگر ان کی جملہ سرگرمیاں”سیاہ ست” کے زمرے میں آسانی کے ساتھ شمار کی جاسکتی ہیں بعض سینئر صحافی اور وی لاگرز کے ”دعوئوں” کے مطابق موصوفہ کا تازہ بیان پارٹی کے بانی کی ایماء پر ہی دیا گیا ہے اگرچہ اب حالات وہ نہیں رہے اور کسی بھی قسم کی سازشیں کامیاب ہونے کا خواب دیکھنے والوں کے مقدر میں مایوسی ہی لکھی جا چکی ہے جبکہ موصوفہ کو ”مبینہ ڈیل” کے تحت رہا کرنے والوں کو اب اپنی غلطی کا احساس ہو رہا ہو گا کہ جو وعدے کرکے موصوفہ نے جیل کی چاردیواری سے نجات حاصل کی ان وعدوں پر وہ بھی اپنے شوہر کی طرح ”یوٹرن” لے چکی ہیں اور ان کی مبینہ سرگرمیوں کے حوالے سے جو خبریں آرہی ہیں وہ یقینا چشم کشا ہیں یعنی بقول شاعر
کوفہ مزاج لوگوں کی بہات ہے یہاں
اس شہر نامراد سے خیمے سمیٹ لو
بات”یوٹرن ”کی چلی ہے تو ایک اور ”بگ یوٹرن” بھی آگیا ہے چیئرمین ا سلامی نظریاتی کونسل علامہ راغب نعیمی نے ابھی حال ہی میں وی پی این کے بارے میں جو بیان دیا تھا جس میں وی پی ا ین کے استعمال کو غیر شرعی قرار دیاتھا اس پر زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں جن میں سیاسی رہنما، حکومتی اکابرین ، صحافی ، وی لاگرز ، آئی ٹی ماہرین شامل تھے یہاں تک کہ خود دینی حلقوں سے تعلق رکھنے والے اہم علماء کرام نے بھی اس بیان پر علامہ صاحب کے نظریئے سے عدم اتفاق کرتے ہوئے ان کی مخالفت میں بیانات دیئے یوں موصوف کے بیان نے بیک فائر کرتے ہوئے ان کو ”یوٹرن” لینے پر مجبور کردیا اور انہوں نے وضاحت دی کہ ان کا بیان ٹائپ کی غلطی تھی۔ ان کایہ مقصد ہر گز نہیں تھا حالانکہ اگر وہ اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے کھلے دل سے یہ اعتراف کرتے کہ انہوں نے معاملے کو سمجھنے میں غلطی کی تو ہمارا خیال ہے کہ ان کی عزت میں دو چند اضافہ ہوجاتا مگر انہوں نے ایک غلطی کی ایک اور غلط بیانی سے مٹانے کی کوشش کرکے اپنا ”مذاق” اڑایا ہے ذرا وہ یہ تو بتائیںکہ ٹائپ کی کونسی غلطی تھی جس نے ان کو اس نازک صورتحال سے دو چار کیا؟ جو لوگ اپنی غلطی کھلے دل سے تسلیم کرتے ہوئے اعتراف کرتے ہیں ان کی عزت میں اضافہ ہوتا ہے مگر ایک غلطی کو دوسری غلطی سے ڈھانپنے کی کوشش سے ان کی شخصیت کے حوالے سے کوئی اچھا اور مثبت تاثر قائم نہیں ہوتا اسی لئے تو بزرگوں نے کہا ہے پہلے تول ، پھر بول۔بقول ابن انشائ
آنکھیں موند کنارے بیٹھو ، من کے رکھوبند کواڑ
انشاء جی لو، دھاگہ لو اور لب سی لو خاموش رہو

مزید پڑھیں:  شہر میں پھولوں کی دکانیں کیوں نہیں ہیں