کرم میں امن بحالی پر اٹھتے سوال

ضلع کرم کے علاقہ پاڑہ چنار میں انسانی جانوں کے ضیاع کے حوالے سے صورتحال نے مزید خطرناک صورت اختیار کر لی ہے، سوشل میڈیا پر چلنے والی بعض پوسٹوں میں یہ دعوے کئے جا رہے ہیں کہ بے گناہ افراد کے مبینہ قتل عام اور لاشوں کیساتھ کئے جانیوالے ناروااور انسانیت سوزسلوک کے بارے میںزیادہ تفصیل اور کھل کر اظہار رائے کرنے سے صورتحال مزید خطرناک ہو سکتی ہے، اطلاعات کے مطابق بگن، مندوری اور علی زئی کے علاقوں میں خودکار ہتھیاروں سے شدید فائرنگ، علی زئی، بالش خیل ،خارکلے اور مقبل گاؤں میں بھی جھڑپوں کے نتیجے میں کئی دکانیں اور گھر نذر آتش کرنے کی اطلاعات آرہی ہیں، لوگوں نے بڑی تعداد میں نقل مکانی شروع کر دی ہے، جبکہ ٹل کے لوگوں نے گھر چھوڑنے والوں کیلئے اپنے گھروں کے دروازے کھول دئیے،امن وامان کی بحالی اور جرگے کو دوبارہ فعال کرنے کیلئے وزیر قانون کی سربراہی میں وفد کرم پہنچ گیا، وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی صدارت میں وزیر اعلیٰ ہاؤس میں منعقد ہونیوالے ایک اہم ویڈیو لنک اجلاس میں امن و امان کی تازہ صورتحال کا جائزہ لیا گیا ،اس موقع پر وزیراعلیٰ نے کہا کہ کرم تنازعہ حل کیلئے علاقے میںسیز فائر ناگزیر ہے ،فریقین کے جائز مطالبات پورے کریں گے ،جرگے کے ذریعے مسئلے کا پرامن حل نکالیں گے، ادھر اے این پی کے مرکزی صدر سینیٹر ایمل ولی خان نے اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اے این پی عنقریب پاڑہ چنار میں قومی سطح پر کشیدگی کے خاتمے کیلئے جرگہ تشکیل دیگی، موجودہ حالات میں خیبر پختونخوا بالخصوص کرم انتہائی خطرناک اور نازک صورتحال سے گزر رہا ہے ،پختونوں کا کوئی پوچھنے والا نہیں، ہم پختونوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جانے دیں گے، انہوں نے الزام لگایا کہ پاڑہ چنار کو خالی کرنے کیلئے کرم کے حالات منصوبے کے تحت خراب کئے جا رہے ہیں، انہوں نے حکومت سے فوری طور پر قومی اسمبلی و سینٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے اور موجودہ صورتحال پر بریفنگ دینے کا مطالبہ کیا، دوسری جانب اے این پی نے کرم سانحہ پر 25 مئی کو صوبہ بھر میں یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا، سابق امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ کرم ایجنسی میں سرکار کی رٹ ختم ہو چکی ہے، ملک خانہ جنگی کی طرف جا رہا ہے اور حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی ،امر واقعہ یہ ہے کہ کرم ایجنسی میں صورتحال جس خطرناک نہج پر پہنچ چکی ہے اس کے تقاضے اس صورتحال کی جانب بھرپور توجہ کر کے وہاں حالات کو معمول پر لا کر امن و امان کے قیام کو یقینی بنانا ہے، اس حوالے سے خود وزیراعلیٰ پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان سے توجہ ہٹا کر اور صرف جرگوں کیساتھ ساتھ تمام تر انتظامی اختیارات استعمال کر کے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوششیں پوری کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتیں، جبکہ وزیراعلیٰ اپنے صوبے میں لگی ہوئی آگ جس نے فرقہ وارانہ شکل اختیار کر کے مزید خطرناک شکل اختیار کر لی ہے، کوپوری توجہ دے کر بجھانے کی کوششوں کے برعکس ایک بار پھر وفاق پر حملہ آور ہونے کیلئے اقدام اٹھا رہے ہیں، حالانکہ ان کی اولین ذمہ داری خود اپنے” گھر” میں لگی فرقہ وارانہ آگ کو بجھانے کیلئے صوبے میں موجودگی ضروری ہے ،اس نازک مرحلے میں جب ایک طرف کرم ایجنسی میں لگی آگ دستیاب اطلاعات کے مطابق مزید پھیل رہی ہے اور سینکڑوں خاندان اپنے گھروں کو چھوڑنے اور قریبی علاقوں میں نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں، اس قسم کی صورتحال پہلے بھی یہ صوبہ بنوں، سوات اور دیگر علاقوں سے مختلف مواقع پر آئی ڈی پیز کی صورت میں دیکھ چکا ہے جن میں لا تعداد افراد آج تک واپس اپنے آبائی علاقوں میں نہیں جا سکے اور اب تک دربدر ہو کر کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، تو کیا موجودہ صوبائی حکومت ایک بار پھر کرم کے علاقے میں ہونیوالی بربادی کو کھلی آنکھ سے دیکھتے ہوئے بھی ان سے جان بوجھ کر تغافل برتنے کی راہ پر گامزن ہے؟، یہاں پر صوبے کی دوسری جماعتیں بھی ا کر ایمل ولی خان اور سراج الحق کی طرح آواز اٹھا کر نہ صرف صوبائی حکومت بلکہ وفاقی حکومت کو بھی اس جانب متوجہ کریں کہ وہ اس خطرناک صورتحال کے خاتمے کیلئے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں، خصوصاً جمعیت علماء اسلام،قومی وطن پارٹی، مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر خصوصاً دینی مذہبی حلقوں کو اس معاملے میں آگے آ کر ایک گرینڈ جرگہ منعقد کر کے کرم میں دیر پا امن کے قیام کو یقینی بنائیں تو اس سے مزید تباہی کا دروازہ بند ہو سکتا ہے، صوبے میں امن و امان کا قیام سب کے مفاد
میں ہے جبکہ بقول ایمل والی خان ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کرم کے حالات خراب کئے جا رہے ہیں، اس لئے صوبے کی جملہ سیاسی قیادت پر اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ صرف الزامات ہی نہ لگائے بلکہ امن و امان کے قیام میں اپنا اثر رسوخ استعمال کرتے ہوئے اس سے فرقہ وارانہ آگ پر قابو پانے میں عملی جدوجہد کریں اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس نہج تک پہنچنے والی صورتحال کے پیچھے کیا عوامل کار فرما تھے اور کیسے بے گناہ مسافروں کی گاڑیوں پر جان لیوا حملہ کرنے کا نتیجہ فرقہ وارانہ جھڑپوں میں تبدیل ہوا ،اس حوالے سے غیر جانبدارانہ تحقیقات بھی ازحد ضروری ہیں تاکہ اصل مجرموں تک پہنچنے میں آسانی ہو اور مکمل امن کی راہ ہموار کی جا سکے۔

مزید پڑھیں:  ڈیجیٹل پنجہ آزمائی