ایک غریب ملک کیساتھ”کھلواڑا ؟”

یہ کسی نجی ادارے کے شائع کردہ اعداد و شمار نہیں جن پر کئی طرح کے سوالات اٹھائے جائیں اور فریقین میں سے کوئی اسے جھوٹ اور کوئی سچ قرار دینے پر اپنی توانائیاں صرف کر کے اپنے اپنے حامیوں کو مطمئن کرنیکی کوششیں کریں بلکہ سرکاری طور پر جاری کئے جانے والے وہ اعدادوشمارہیں جن کے بارے میںکہاجارہاہے کہ گزشتہ 18ماہ میںپی ٹی آئی دھرنوںاور احتجاج سے نمٹنے پر2 ارب10 کروڑ روپے خرچ ہوئے، پچھلے6 ماہ کے دھرنوں اور احتجاج پر ایک ارب20 کروڑ خرچ جبکہ ڈیڑھ ارب روپے کی املاک کو نقصان پہنچا،80 کروڑ روپے کرائے پر لیے گئے تین ہزار کنٹینرز،90 کروڑ سے زائد سیکورٹی اہلکاروں کی ٹرانسپورٹ پر خرچ ہوئے، ڈیڑھ ارب پولیس کے ٹرانسپورٹ اور کھانے پینے پر خرچ ہوئے، اس میں ٹی اے ڈی اے بھی شامل ہو سکتے ہیں، تاہم یہ تو صرف دفاعی سطح پر ہوئے وہ اخراجات ہیں جو پی ٹی آئی کے دھرنوں، جلوسوں وغیرہ سے عہدہ برآ ہونے کیلئے وفاقی خزانے سے خرچ کئے گئے اور جہاں تک خیبر پختونخوا حکومت کے ان جلوسوں اور دھرنوں ( کامیاب و ناکامیاب؟) پر صوبائی خزانے سے جو اخراجات کئے گئے ان کے اعداد و شمار تا حال سامنے نہیں آئے، جبکہ حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ ( صوبائی) اخراجات ایک ایسے صوبے کی جانب سے کئے گئے ہیں جو گزشتہ12 سال کے دوران پی ٹی آئی کے موجودہ تیسرے دورتک صوبے کو بے پناہ قرضوں میں جکڑ کر عوام کے مفادات اور فلاح و بہبود کو نظر انداز کر کے صوبے کو مشکلات سے دوچار کرنے کی راہ اختیار کی گئی، اس دوران مختلف اوقات میں بدعنوانیوں، خورد برد اور قومی و صوبائی خزانوں کو مبینہ طور پر لوٹنے کے الزامات بھی وفاق اور صوبے کی حکومتوں پر عائد کئے جاتے رہے ہیں ،تاہم جس تیزی سے خیبر پختونخوا پر قرضے چڑھائے گئے اس کا تذکرہ تسلسل سے سامنے آتا رہا ہے اور بعض منصوبوں کیخلاف انکوائری تو مختلف حیلوں بہانوں سے روکنے بلکہ عدالتی احکامات کے ذریعے تاخیری حربوں کا شکار کرنے کی” کامیاب” کوششیں کی گئیں وہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ خزانے متعلقہ حکومتوں کے ذاتی ملکیت ہیں جو قوم و ملک اور عوام کے نام پر بیرونی قرضے حاصل کر کے عوام کی بہبود پر خرچ کرنے کی بجائے ان کے سیاسی اور ذاتی مفادات پر خرچ کئے جا رہے ہیں؟ اور آپس کے سیاسی جھگڑوں اور مخاصمتوں پر یہ بھاری اخراجات ان کی صوابدید پر قوم سے بعد میں بھاری ٹیکسوں کے ذریعے وصول کئے جاتے ہیں ،آخر اس کا جواب کون دے گا؟۔

مزید پڑھیں:  پیپلزپارٹی۔ جواب دعوی اور سوالات