”اصلاحات بذریعہ ایم ٹی آئی یا نجکاری”

زندگی میں سوائے زندگی کے سب سیکنڈری ہے،انسان کو دنیا میں سب سے زیادہ اگر کوئی چیز عزیز ہے تو وہ جان ہے،جسم اور روح کا رشتہ قائم رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ اپنی صحت کا خیال رکھا جائے،زندگی نام ہی نشیب و فراز کا ہے،ہماری زندگی میں اچھے برے دن آتے رہتے ہیں،کبھی کبھی ہمارے اردگرد تاریکیاں اتنی بڑھ جاتی ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ شاید اب کبھی سحر کا منہ دیکھنا ہی نصیب نہ ہو،لیکن ایسے میں ایک جگنو بھی نظر آجائے تو پھر سے امید بندھ جاتی ہے اور یہ امید ہمیں جینے کا اور کوشش کرنے کا حوصلہ فراہم کرتی ہے۔خیبر پختونخوا میں سرکاری ہسپتالوں کا برا حال ہے،سرکاری ہسپتال اب پرائیویٹ ہسپتالوں میں تبدیل ہوگئے ہیں ،غریب عوام اب در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں،جب انتظامیہ والوں سے پوچھا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ یہ سب تحریک انصاف حکومت کے کارنامے ہیں ہم اس میں کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔میڈیکل ٹیچنگ انسٹیٹویشن آرڈیننس کے تحت سرکاری ہسپتالوں کی
نجکاری نہیں بلکہ اس کا مقصد انتظامی امور اور طبی سہولیات کی فراہمی میں اصلاحات لانا ہے،میرٹ کا یہ حال ہے صوبے کے تین بڑے ہسپتالوں لیڈی ریڈنگ ،حیات آباد میڈیکل کمپلیکس اور خیبر ٹیچنگ ہسپتال کا نظام ٹھیک نہیں کیا گیا،حکومت کیا چاہتی ہے کہ لوگ ہسپتالوں میں رلتے رہیں،چند دن پہلے پشاور کے بڑے سرکاری ہسپتال لیڈی ریڈنگ میں ایک مریض کیساتھ جانے کا موقع ملا،سارے لوازمات پورے ہونے پر مریض کو واپس کردیا گیا کہ یہ
ہمارا کیس نہیں ہے،دو تین مرتبہ واپس کردیا گیا جب میں نے اپنا تعارف کروایا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ لکھ کر دے دو تو صاف انکاری ہوگیا اور یوں مریض کو داخلہ مل گیا،ہسپتال میں دیکھا کہ دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے لوگ اپنے مریضوں کے داخلے کیلئے چکر لگا لگا کر تھک چکے ہیں لیکن انہیں داخلہ نہیں مل رہا،پرائیوٹ کلینک میں پچاس پچاس مریضوں سے فیس لیکر چیک اپ کرتا ہے لیکن سرکاری ہسپتالوں میں تنخواہیں اور مراعات لینے کے باوجود پروفیسر ،سپیشلسٹ ڈاکٹر مریضوں کا چیک اپ نہیں کرتے،پرائیویٹ کلینکس میں ڈاکٹر مریضوں سے صرف فیس وصول نہیں کرتے بلکہ مختلف ٹیسٹوں اور ادویات کی مد میں بھی کمیشن وصول کرتے ہیں،ڈاکڑ ہسپتالوں میں مریضوں کا معائنہ نہیں کرتے بلکہ اپنے پرائیویٹ کلینکس میں مریضوں کو آنے پر مجبور کرتے ہیں۔امن وامان صورت حال کے بعد صوبے میں صحت کی سہولیات کی فراہمی میں پیدا ہونیوالے مسائل بھی عوام کیلئے مشکلات کا باعث بن رہے ہیں۔پچھلے دنوں ایسے واقعات رونماء ہوئے جن کا اثر مدتوں ہمارے ذہن پر رہے گا،سوشل میڈیا پر ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ میرے دوست کو بچا لیں اس وقت وہ پشاور کے ایک بڑے سرکاری ہسپتال میں ہے جہاں پر آئی سی یو میں اسے بیڈ اور وینٹی لیٹر نہیں مل رہا،کسی دوسرے سرکاری ہسپتال میں وینٹی لیٹر دلا دیں، ڈاکٹروں نے کہا کہ اس نوجوان کے پاس صرف چند گھنٹے ہیں،سو وہ چند گھنٹے اسی بھاگ دوڑ میں گزر گئے اور وہ نوجوان بھی گزر گیا کیونکہ یہ بے چارے پرائیویٹ ہسپتال میں وینٹی لیٹر کے چارجز برداشت نہیں کر سکتے۔دوسرا واقعہ،ایک پرائیویٹ ہسپتال کے آئی سی یو میں ایک متوسط طبقے کے فرد نے اپنا مریض داخل کرایا،تمام جمع پیسے خرچ ہوئے اور آخر انہیں زیور فروخت کرنا پڑا،پاکستان میں ہر روز ہزاروں افراد بیماریوں اور حادثات کی وجہ سے مر جاتے ہیں،پرائیویٹ ہسپتالوں کی بھی صورت حال کچھ زیادہ اچھی نہیں،وہاں بھی روزانہ سینکڑوں افراد مرجاتے ہیں،آج کل ڈاکٹر اور مریض کا رشتہ پہلے کی طرح محسن اور ممنون کا نہیں بلکہ ایک بکرے اور قصاب کا ہے۔پہلے علاج ہوتا تھا،اب علاج بکتا ہے۔پہلے مریض کو جلد از جلد رخصت دی جاتی تھی اور علاج کو لمبا کرنے سے گریز کیا جاتا تھا مگر اب مریض گویا ایک ”ATM”کارڈ ہے،لگاتے جاؤ،پیسے نکالتے جاؤ،پھر اتنی جلدی اس پیسے فراہم کرنیوالی مشین کو کیسے الوداع کہہ دیا جائے،سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکڑ سے لیکر اردلی تک مریضوں کیساتھ توہین آمیز سلوک روا رکھتے ہیں،ڈاکڑ کی فیس جو کہ آج کل ایک ہزار سے دو ہزار تک ہے اتنی بڑی بلڈنگ ہے،لفٹ اور دیگر بہت سی سہولیات ہیں،کیا ہوا اگر آپ نے ان کا استعمال نہیں کیا مگر چارجز تو دینا ہی پڑیں گے نا۔یہاں روز روز لمبی لمبی میٹنگ صحت کے مسائل پر ہوتی رہتی ہیں،یہاں حکومت کی ترجیحات میں صرف اور صرف میڑو بس اور اورنج ٹرین ہے،آپ کو یہ پتہ نہیں
جس کا نوجوان بھائی، بیٹا، والد، والدہ، بہن، ماں وینٹی لیٹر نہ ملنے سے مرجائے وہ ساری عمر اس غم کو نہیں بھول پائیگا۔خدارا ایک آڈٹ اس پر کرائیں کہ ایک سال میں کتنے افراد سرکاری ہسپتالوں میں وینٹی لیٹر نہ ملنے پر مرجاتے ہیں،ابھی تو میں نے یہ بات نہیں کہی کہ ادویات نہ ملنے پر، ڈاکٹروں کی غفلت سے ،غلط علاج سے ،بروقت طبی امداد نہ ملنے پر ،نرسوں کی غفلت سے ،غربت کے ہاتھوں روزانہ کتنے مریض اور زخمی مرجاتے ہیں۔گورنر صاحب اور وزیراعلیٰ صاحب آپ بھیس بدل کر صرف ایک دفعہ ہماری درخواست پر کسی سرکاری ہسپتال میں مریض بن کر جاکر تو دیکھیں،پشاور کے تینوں بڑے ہسپتالوں میں جب انتہائی نگہداشت وارڈز میں بیڈز فل ہوگئے ہیں تو مریض کہاں جائیں گے ؟اوسط آمدن کے لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان میں بلا واسطہ اور بالواسطہ ٹیکسوں کی شرح کوئی ایسی کم بھی نہیں ،لیکن اس کے بدلے میں ریاست کی طرف سے شہریوں کو میسر سہولیات کا معیار کیا ہے؟ یہ ہم سب جانتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  انسان کی بیگانگی اور معاشرتی لا تعلقی