میں جب کبھی بھی قائداعظم محمدعلی جناح صاحب کی 11اگست 1947ء کو دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں کی گئی تقریر کو یاد کرتا ہوں تو پریشانیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ جناح صاحب کی وفات کے بعد جناب لیاقت علی خان مولوی حضرات کے دباؤ میں آگئے اور اس سے اگلے سال قرارداد مقاصد طوق اس ملک کی گردن میں ڈال دیا گیا۔ جناح صاحب نے اپنی تقریر میں کہا تھا”آج سے آپ آزاد ہیں، ایک آزاد ملک کے شہری ہیں، اپنی مسجدوں، مندروں، گرجا گھروں اور دوسری عبادت گاہوں میں جانے کیلئے ،ریاست کو آپ کی ذات، رنگ و نسل، مذہب و عقیدے سے کوئی غرض نہیں، بلکہ ریاست کا فرض ہے کہ وہ آپ کے شخصی حقوق کا تحفظ کرے”۔ انہوں نے اور بھی بہت کچھ کہا اس تاریخ ساز تقریر میں۔ مگر اس تقریر کے ایک ایک لفظ کی ہماری اسٹیبلشمنٹ اور اس کے ساجھے داروں نے پچھلی ساڑھے سات دہائیوں میں جو درگت بنائی وہ خون رونے کیلئے کافی ہے۔ ہم جب جناح صاحب کی اس تقریر کے تناظر میں بحث مباحثہ کرتے ہیں تو کسی کونے کھدررے سے پھدک کر کوئی نہ کوئی آن دھمکتا ہے اور ہمیں سمجھاتا ہے کہ برصغیر کی تقسیم مذاہب کی بنیاد پر ہوئی تھی۔ اس کے پاس جناح صاحب کی درجن بھر تقریروں کے حوالے بھی
ہوتے ہیں۔ میں ہمیشہ ایسے مواقع پر یہی عرض کرتا ہوں کہ مسلم لیگ کی سیاست بلکہ قیام کا اساسی نظریہ مسلمانوں کے سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق کا تحفظ تھا۔ خود جناح صاحب متعدد مواقع پر اس حوالے سے کہتے رہے کہ ہندو اکثریت مسلم اقلیت کے سیاسی، سماجی اور
معاشی حقوق غصب کرلے گی۔ ثانیاً یہ کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا کا ”من چلے کا سودا” قرارداد مقاصد کے بعد جوش و جذبے سے فروخت ہونا شروع ہوا۔ نظریہ پاکستان دوسرے فوجی حکمران جنرل یحییٰ خان کے وزیر اطلاعات جنرل شیر علی خان پٹودی کی تخلیق ہے تو جواباً کھٹ سے فتویٰ صادر ہوتا ہے۔ اسلامی پاکستان کا حامی ہمیشہ یہی کہتا ہے کہ یہ ملک اسلام کے نام پر اسلام کیلئے بنا ہے۔مجھ طالبعلم کی رائے یہ ہے کہ ملک مسلمانوں کے نام پر مسلمانوں کیلئے بنا بجا لیکن جناح صاحب کی 11اگست 1947ء والی تقریر کا کیا کیجئے گا؟معاف کیجئے گا کیسا خشک موضوع ہے لیکن ہمارے چار اور بڑھتی پھلتی پھولتی انتہا پسندی نے جس طور زندگی اجیرن کررکھی ہے اس سے پناہ کی جگہ صرف وہی تقریر ہے جس کا ذکر بالائی سطور میں کرچکا۔ قرارداد مقاصد اور پھر افغانستان میں لڑی گئی امریکہ سوویت جنگ جسے ہمارے یہاں جہاد کہا جاتا ہے نے سب کچھ تلپٹ کرکے رکھ دیا ہے۔ مسلکی اختلافات تقسیم برصغیر سے قبل بھی موجود تھے مگر ان اختلافات نے تقسیم کے بعد اور خصوصاً 1970ء کی دہائی کے بعد ہماری جو درگت بنائی اس بارے سوچتے ہی جھرجھری سی آجاتی ہے۔ آپ پاراچنار سمیت چند علاقوں میں ہوئے دہشتگردی کے حالیہ واقعات کو ہی دیکھ لیجے سوال بہت ہیں اور جواب فقط ” چْپ ”مجھ سمیت تقریباً سارے آزاد خیال مذہبی انتہا پسندی کا ذمہ دار جنرل ضیاء الحق کے دور کو ٹھہراتے ہیں لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ اس کی بنیاد قرارداد مقاصد نے رکھی آگے کے کچھ مواقع بھی معاون بنے۔ بعض جذباتی فیصلوں نے گہرے گھائو لگائے جن سے آج تک خون رس رہا ہے۔ رہی سہی کسر تیسرے مارشل لاء نے پوری کردی۔ افغان جہاد کی آڑ میں فرقہ وارانہ لشکر بنے، حکومت نے اپنی ضرورتوں کے پیش نظر چشم پوشی کامظاہرہ کیا۔ اس چشم پوشی بلکہ عمومی شراکت داری کا اعتراف کرتے ہوئے کچھ عرصہ قبل آرمی چیف ( اب سابق ) جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ ”پچھلے چالیس سال کے غلط فیصلوں اور پالیسیوں نے جو نقصان پہنچانا
ان کی تلافی ممکن نہیں”۔ ہم نے تب بھی عرض کیا تھا کہ ہماری دانست میں ماضی کے غلط فیصلوں اور پالیسیوں کے منفی نتائج کا اعتراف ہی کافی نہیں تھا، ہونا یہ چاہیے تھا کہ مستقبل کے حوالے سے کچھ فیصلے ہوتے مگر نہیں ہوئے۔مکرر عرض کرتاہوں اصلاح احوال کی صرف ایک صورت ہے اور وہ یہ ہے کہ محمدعلی جناح صاحب کی 11اگست 1947ء والی تقریر کو دستور کا بیانیہ بنایا جائے۔ معروضی حالات، شدت پسندی اور دوسرے مسائل کے پیش نظر ضروری ہوگیاہے کہ دستور میں
دیئے گئے شہری، سیاسی اور معاشی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے اور اس کیساتھ ساتھ یہ کہ دستور میں دی گئی شہری و سیاسی آزادیوں سے متصادم نظریات کی ترویج کرنیوالی جماعتوں پر پابندی لگائی جائے۔ آپ کہہ سکتے ہیں پابندی مسئلہ کا حل نہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جو کام چند برسوں بعد ناگزیر ہوجائے ابھی سے کرلیا جائے تو بہتر ہے۔ہم اس تلخ حقیقت سے آنکھیں نہیں چراسکتے کہ پاکستان میں مسلم فرقوں کے درمیان عدم برداشت عروج پر ہے تو دوسری طرف دیگر مذہبی برادریوں کی زندگی بھی اجیرن کررکھی ہے۔ حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ جرات مندانہ اقدامات اٹھائے جائیں۔ ہاں یہ درست ہے کہ جو لوگ مسلم لیگ( ن)، پیپلز پارٹی اور اے این پی کیخلاف مذہبی کارڈ کھیلتے رہے ہوں وہ رواداری کے فروغ کیلئے سنجیدگی کا مظاہرہ مشکل سے ہی کریں گے۔ اس کے باوجود یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ اگر اصلاح احوال کیلئے فوری طور پر اقدامات نہ ہوئے تو معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان خلیج بڑھتی چلی جائیگی اور انتہا پسند گلی گلی اپنی مرضی نافذ کرنے لگیں گے پھانسی گھاٹ بنائیں گے اور گردنیں ماریں گے ویسے یہ اب بھی ہوہی رہا ہے ،آخری بات یہ ہے کہ ایک غیرمذہبی ریاست اور نظام ہی مساوات کے اعلیٰ اصولوں کی پاسداری کرسکتے ہیں لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے حقیقی فرائض پر توجہ دیں خصوصاً پیپلزپارٹی اور اے این پی اپنے اساسی نظریات سے رجوع کریں تاکہ کوئی امید کا دیا روشن ہوسکے ،خدا لگتی بات ہے اب تو دم گھٹنے لگا ہے بس میں ہو اور وسائل بھی ہوں تو یہاں سے ایسا بھاگوں کے پلٹ کر کبھی نہ آؤں، ہائے افسوس کے یہیں باقی ماندہ دن پورے کرنے اور مرنا ہے۔
Load/Hide Comments