کرم سمیت جاری صورتحال کاتقاضا

خیبرپختونخوا حکومت کے وفد کی کوششوں سے کرم میں فریقین کی جانب سے 7روز کی جنگ بندی پر اتفاق اور ایک دوسرے کو لاشیں واپس کرنے کی بھی یقین دہانی سے مزید انسانی جانوں کے ضیاع اور املاک کی تباہی کا راستہ رک سکتا ہے ۔ واضح رہے کہ کرم میں جاری کشیدگی میں 80سے زائد افراد جاں بحق جبکہ درجنوں زخمی ہوئے ہیں پہلے روز مسافر بسوں پر فائرنگ ہوئی تھی جبکہ دوسرے روز بگن بازار پر حملہ کرتے ہوئے کئی افراد کو قتل کر دیا گیا تھا اور بازار کو نذر آتش کر دیا گیا تھااس کے بعد بھی صورتحال قابو سے باہررہی یہ صورتحال پہلی مرتبہ پیش نہیں آئی بلکہ کرم میں معمول بنتا جارہا ہے کہ اچانک کے واقعات میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان اور املاک کی تباہی ہوتی ہے جس کا موقع پر روک تھام کی کوئی کوشش نہیں ہوتی بعد میں لکیر ضرور پیٹی جاتی ہے۔ یہ سانحہ اتنا بڑا اور سنگین ہونے کے ساتھ ساتھ علاقے کا امن مسلسل خطرے میں ہونے کے باعث حکومتی و عسکری قیادت کے ساتھ ساتھ ملکی سطح پر علمائے کرام دانشوروںاور سول سوسائٹی کے نمائندوںپر مشتمل جرگہ کی ضرورت تھی تاکہ موقع پر صورتحال کاجائزہ لینے اور فریقین کے تحفظات دور کرنے کے ساتھ ساتھ اس مسئلے کامستقل حل تلاش کیا جاتا مسئلہ جس قدر سنگین اور دیرپا ہے اس کا حل اس سطح کے جرگہ کی مساعی سے اگر حل ہوتا ہے تو اس سے خوش آئند امر کوئی اور نہیں ہوسکتاتھا مگر سانحہ کی سنگینی اور عوامی تحفظات کے پیش نظر اس امر کا امکان کم ہی ہے کہ مسئلے کا کوئی مستقل حل سامنے آئے جس پر فریقین بامر مجبوری و دبائو نہیں بلکہ شرح صدر کے ساتھ متفق ہو کراس کی کھلے دل سے پابندی کرنے کا عزم وعہد کرتے تو یہ مثالی صورتحال ہوتی جس کی خواہش تو آسان مگر اس کاحصول جوئے شیر لانے کے برابر امرنظر آتا ہے اس کے باوجود بھی ملکی اعلیٰ سطحی جرگہ کا علاقہ جا کر کوشاں ہونا ہی زیادہ اہمیت کا حامل اور موثر ہونا تھا مگر بدقسمتی سے اس وقت ملک میں جن عہدیداروں کو کلی طور پر اس قسم کے سانحے کے آئند ہ کے امکانات کو معدوم کرنے اور متاثرین کودلاسہ دینے کے لئے خود کو شب و روزوقف کرکے یک نکاتی ایجنڈے کی تکمیل پر مکمل توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت تھی وہ آج سڑکوں پریلغار اور یلغار کو روکنے کے لئے دست و گریبان ہیں ہر فریقین کا اپنا اپناسچ اور موقف ہے ہر فریق کے تحفظات ہیں جو اپنی جگہ لیکن قومی و ملکی مفاد ہم آہنگی مکالمہ مثبت سوچ اور عوام کا خیال شاید کسی بھی فریق کو نہیں جس کے باعث ملک میں بار بار آگ لگتی ہے باربارسڑکیں بند ہوتی ہیں جو وسائل عوام کی بہبود کے لئے بروئے کار لانے ہوتے ہیں وہ سڑکوں پر مبازرت میں مستعمل دکھائی دیتی ہے نجانے کب ہماری قیادت کو ہوش آئے گا جب تک قومی مفاد ہر قسم کی سیاست و حکومت اور اقتدار پر مقدم نہ ہو اس طرح کے حالات سے نکلنا اور اس سے چھٹکارا ممکن نہیںکرم میں ابتدائی طور پر بدترین واقعات کو دہشت گردوں کی کارستانی ٹھہرائی گئی تھی مگراب رفتہ رفتہ اس کے لئے فریق کا لفظ استعمال کیا جانے لگا ہے جس سے اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ یہ وہی روایتی مبازرت کا اعادہ ہے جس کی تیاری سالوں جاری رہتی ہے اس میں کسی ایک گروہ اور فریق کو مطعون نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کی ذمہ داری فریقین پر برابر کی عائد ہوتی ہے جو شدید لڑائی کے بعد بعدازخرابی بسیار کے مصداق وقفہ کرنے پر آمادہ تو ہوتے ہیں مگر لڑائی ختم کرنے اور تسلسل کے ساتھ لڑائی کی تیاری سے ہاتھ نہیں کھینچتے اس مرتبہ جرگہ کی سعی یہ ہونی چاہئے کہ وہ فریقین کو محض”وقفہ” پر آمادگی کے لئے آمادہ نہ کرے بلکہ ان سے ضمانت لی جائے کہ وہ آئندہ حالت امن میں کسی حربی تیاری سے باز رہیں گے اور ایک دوسرے کے جان ومال کا احترام کرنے کے پابندی رہیں گے صورتحال ایسی ہے کہ جب تک فریقین معاملہ خلوص نیت سے پرامن رہنے کا عملی عزم نہیں کرتے علاقے میں مستقل امن کی واپسی یقینی نہیں بن سکتی۔کرم ہی میں نہیں بلکہ اس وقت ضم اضلاع میں بھی امن و امان کی جو صورتحال ہے اس حوالے سے بھی خبریں اچھی نہیں آرہیں پیش آمدہ واقعات سے بھی اس کا عندیہ ملتا ہے جہاں واضح طور پر دہشت گردی کے معاملات ہیں ان سے نمٹنا اتنا بڑا مسئلہ نہیں جتنا کہ علاوہ ازیں کی صورتحال بنی ہوئی ہے جوحالات درپیش اور جاری ہیں ان مسائل کاحل یکطرفہ کارروائیوں اور انتظامی سختی کا مظاہرہ کرکے نکالا نہیں جاسکتا بلکہ اس کے لئے مفاہمانہ فضا پیدا کرکے پیچیدگیوں کا مشترکہ جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے اس طرف توجہ دیئے بغیر اصلاح احوال کی کوئی صورت مشکل ہی سے نکلے گی۔

مزید پڑھیں:  چور ڈاکو سے فسادی اور دہشت گرد تک