ریٹائرڈ لوگوں کا المیہ

پاکستان بیک وقت معاشی ، معاشرتی ، انتظامی اور اخلاقی بحرانوں کا شکار ہے جن کے نتیجے میں یہاں رہائش پذیر افراد کی زندگی دن بدن مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے ۔ یہاں ہر شخص کسی نہ کسی مسئلہ سے دوچار ہے ۔ یہاں کام کرنے والے افراد کی تعداد صرف گیارہ فیصد ہے یعنی باقی نواسی فیصد لوگ ان گیارہ فیصد لوگوں پر بوجھ ہیں ۔ ایک رپورٹ کے مطابق چار کروڑ سے زیادہ تو بھکاری ہیں ۔ یہ گیارہ فیصد افراد یا تو کاروبار کرتے ہیں یا نوکری کرتے ہیں ۔ کاروبار کے لیے تو عمر کی کوئی شرط نہیں ہے لیکن نوکری ایک خاص عمر کے بعد نہیں کی جاسکتی ۔ نوکر پیشہ افرا د جن کی زیادہ تعداد کم آمدنی والے افراد پر مشتمل ہے وہ جب ریٹائرڈ ہوجاتے ہیں تو ان کی زندگی میں کئی ایک ایسے مسئلے جنم لیتے ہیں جن کا تصور انہوں نے جب وہ برسرروزگار تھے نہیں کیا ہوتا ۔ وہ افسران جن کی آمدنی معقول ہوتی ہے وہ تو عام معاشرے سے کٹ کر ایک الگ تھلگ سوسائٹی میں جاکر رہائش پذیر ہوجاتے ہیں ۔ چونکہ وہ معاشرتی زندگی میں زیاد ہ فعال نہیں ہوتے اس لیے ریٹائرمنٹ کے بعد معاشرہ بھی انہیں کوئی اہمیت نہیں دیتا بلکہ بیشتر صورتوں میں قبول بھی نہیں کرتا ۔ اس لیے یہ لوگ اپنے گھر تک محدود ہوجاتے ہیں ۔ یوں وہ تنہائی اور عدم توجہ کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ دوران نوکری چونکہ ہر کوئی ان کے عہدے اور اختیار کی وجہ سے ان کے آگے پیچھے رہتا ہے لیکن جب ملازمت ختم ہوجاتی ہے تو یہ سارے لوگ چونکہ مطلب اور غرض کی وجہ سے تعلق رکھنے پر مجبور ہوتے ہیں وہ اپنا تعلق ختم کرلیتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے وہ انسان تنہائی محسوس کرتا ہے ۔ چونکہ ہمارے معاشرے میں بیشتر ملازمت پیشہ طبقہ اپنے بچوں کو وقت نہیں دیتا اور نہ ہی ان کی سماجی اور اخلاقی تربیت کرتا ہے اور نہ والدین ان بچوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں اس لیے ریٹائرڈ ہونے والے افراد سے ان کے بچوں کا سلوک بھی ویسا ہی ہوتا ہے بیشتر صورتوں میں وہ اپنے والدین کو بوجھ سمجھتے ہیں ۔ اس رجحان میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے ۔ اگر والد سے کوئی مالی فائدہ وابستہ ہو تو پھر کسی حد تک بچے ان کا خیال رکھتے ہیں لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو وہ ان سے خلاصی کی تدبیریں سوچ رہے ہوتے ہیں ۔یہ سب کچھ گزشتہ دہائیوں میں یورپ اور امریکہ میں ہوتا رہا ہے ۔ جس کی وجہ سے ان کا معاشرہ بہت سارے مسائل سے دوچار ہوا ۔ اس کا حل انہوں نے یہ نکالا کہ ہر شہر میں سینکڑوں کی تعداد میں اولڈ پیپل ہومز کھل گئے جہاں ریٹائرڈ اور عمر رسیدہ افراد جاکر رہنے لگے ۔ یہ ٹرینڈ اب پاکستان کے کئی شہروں میں بھی شروع ہوگیا ہے ۔ یورپ اور امریکہ میں تو اس پر اب کسی حدتک قابو پالیا گیا ہے اوروہاں پر شروع ہی سے لوگ الگ رہنے کو ترجیح دیتے تھے اور کسی دوسرے کی مداخلت اپنی خانگی زندگی میں برداشت نہیں کرتے تھے ۔ مگر ہمارے ہاں صورتحال اس کے برعکس ہے ۔یہاں ابتک لوگ مل کررہتے ہیں اور ایک دوسرے پر تکیہ بھی کرتے ہیں ۔ چونکہ مہنگائی بہت زیادہ ہوگئی ہے اور قوت خرید تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے اس لیے لوگوں کے زیادہ جھگڑے یہاں گھر وں اور جائیدادوں کے بٹوارے پر ہورہے ہیں ۔ اگر صورتحال یہی رہی تو اگلے چند برسوں میں ہر گھر میں یہ لڑائی شروع ہوجائے گی اس کا سب سے زیادہ اثر ریٹائرڈ افراد پر پڑ رہا ہے ۔ ان جنگوں اور لڑائیوں میں اکثر وہ بے گھر ہوجاتے ہیں اور معاشرہ ان کو قبول نہیں کرتا اس لیے کہ اپنے گزشتہ زندگی میں وہ معاشرے سے لاتعلق رہے ہوتے ہیں ۔ جو لوگ ریٹائرڈ ہوجاتے ہیں وہ گھر وں پر رہ کر فرسٹریشن کا شکار ہوجاتے ہیں اور اپنا غصہ گھر والوںاور محلے والوں پر اُتارتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی معاشرے میں قبولیت کم ہوجاتی ہے ۔ ریٹائرڈ لوگوں کو ان کے محکموں اور دفتروں میں وہ عزت نہیں ملتی جس کی وہ توقع کررہے ہوتے ہیں ۔ یہ دراصل وہ مکافات عمل ہے جو وہ اپنے سے پہلے ریٹائرڈ ہونے والوں کے ساتھ کرتے رہے اب زیادہ شدت کے ساتھ ان کے ساتھ ایسا ہورہا ہوتا ہے ۔ ہمارے معاشرے میں ہم لوگوں کی عزت ان کی شرافت ، علم اور بزرگی کی وجہ سے نہیں کرتے بلکہ ان کے اختیار اور حیثیت کی وجہ سے کرتے ہیں اور جونہی یہ حیثیت یا اختیار ختم ہوجاتا ہے لوگ ان کو اجنبیوں کی طرف ٹریٹ کرتے ہیں بلکہ بعض اوقات ان کے ساتھ برُا برتاؤ بھی کرتے ہیں ۔ اس معاشرتی سیٹ اپ میں وہ ریٹائرڈ حضرات جو ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے گاؤں چلے جاتے ہیں ان کی زندگی زیادہ مشکل میں ہوتی ہے اس لیے کہ دوران ملازمت لوگوں اور رشتہ داروں کی ان سے بہت زیادہ توقعات ہوتی ہیں ۔ جو وہ دوران ملازمت پورے نہیں کرسکے ہوتے ہیں یا انہوں نے ان کو نظر انداز کیا ہوتا ہے یا پھر کہیں ان کو حقیر جانا ہوتا ہے تو ریٹائرمنٹ کے بعد جب یہ گاؤں واپس آتے ہیں تو ان سے اس کا بدلہ چن ُچن کر لیا جاتا ہے ۔ دنیا میں ریٹائرڈ لوگ اُس ملک کا سرمایہ ہوتے ہیں اس لیے کہ تجربہ کار اور اپنے کام کے ماہرلوگ ہوتے ہیں ۔ دنیا ان کے اس تجربہ اور مہارت سے فائدہ اٹھاتی ہے ۔ دنیا میں یہ لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی زندگی معاشرے کے فلاح بہبود یا جس کام میں وہ ماہر ہوں اس کی مزید ترویج میں لگاتے ہیں جس کا ہمارے ملک میں فقدان ہے ۔ یہاں لے دے کر یہ افراد جب معاشرے میں جگہ نہیں پاتے تو تبلیغ پر نکل جاتے ہیں ۔ چونکہ ہمارے ہاں انتظامی طور جو جہاں ہوتا ہے وہاں وہ کسی نہ کسی صورت اوپر کی کمائی سے مستفید ہوتا رہتا ہے اس لیے بھی لوگ ان لوگوں کو پھر کسی اچھے ماڈل میں قبول نہیں کرتے ۔ ہمارے ملک میں صحت کا انڈکس بھی دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ خراب ہے ساٹھ برس سے زیادہ کے افرا د کی صحت تو اس ملک میں اتنی خراب ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک سے ہم اس کا موازنہ نہیں کرسکتے ۔ ریٹائرڈ لوگوں کی معاشرتی اور معاشی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ ان کو صحت کے حوالے سے بھی شدید پریشانی لاحق ہوتی ہے ۔ ہمارے معاشرے میں ان بزرگوں کو دنیا کی طرح سہولیات میسر نہیں ہوتیں اس لیے زیادہ تر افراد صحت کے مسائل کی وجہ سے اپنے خاندان اور معاشرے پر بوجھ بن جاتے ہیں ۔ وہ لوگ جو ملازمت پر ہوتے ہوئے ہشاش بشاش ہوتے تھے ریٹائرڈ ہوکر چند مہینوں میں برسو ں کے مریض نظر آتے ہیں اس کی وجہ وہ ذہنی دباؤ ہے جو ان کو اس نئے معاشرے میں جاکر ملتا ہے ۔ اور یہ ذہنی دباؤ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا جاتا ہے ۔ہمارے ملک میں بیشتر لوگوں کا ذریعہ روزگار ملازمت ہی ہے اس لیے حکومت کو چاہئیے کہ وہ اس سلسلے میں کوئی منصوبہ بندی کرے اور لوگوں کو بھی چاہئیے کہ وہ ریٹائرمنٹ سے کم از کم دس برس پہلے اپنا قبلہ درست کرلیں اور سماجی اور معاشرتی زندگی میں شامل ہوں اور اپنے بچوں کو پیسوں کے ساتھ ساتھ وقت اور توجہ بھی دیں تاکہ وہ پھر ان کے ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں اور مثبت رویہ رکھیں ۔ وہ تما م ملازمین جو ریٹائرڈ ہورہے ہیں ان کو اپنا پینشن پلان بنانا چاہئیے تاکہ وہ آنے والے وقت میں پیسوں کے محتاج نہ ہوں ۔ اور اپنا پیسہ اپنے پاس رکھیں فوراً بچوں میں نہ بانٹیں تاکہ وہ ان کے محتاج نہ ہوں ۔ ریٹائرڈ حضرات بقول درد
ہر چند آئینہ ہوں پر اتنا ہوں نا قبول
منہ پھیر لے وہ جس کے مجھے رو بہ رو کریں

مزید پڑھیں:  غبار دل