تحریک انصاف کی جانب سے اپنے بانی چیئرمین کی رہائی اور ان کی ہدایت پرمطالبات منوانے کے لئے اسلام آباد پرایک بار پھر یلغار کے نتیجے میں صورتحال انتہائی کشیدہ ہوچکی ہے بلکہ کشیدگی کی انتہاء لمحہ بہ لمحہ مزید بڑھ رہی ہے، میڈیااطلاعات کے مطابق انتظامیہ کی جانب سے گزشتہ روز تک پولیس کوصرف ڈنڈوں ، آنسوگیس اور ربڑی کی گولیاں استعمال کرنے تک محدود رکھنے کی وجہ سے سیکورٹی اہلکاروں پر احتجاج کرنے والوں کے حوصلے بڑھ جانے سے ایک پولیس اہلکارجاں بحق اور متعدد کے زخمی ہونے کی اطلاعات موصول ہوئیں جبکہ اب گزشتہ رات رینجرز کے کچھ اہلکاروں کومبینہ طور پرگاڑیوں کے نیچے کچلنے کی خبریں اور بالاخر افواج کی تعیناتی کی خبریں سامنے آئیں تاہم معاملات کس نہج پر جا کر ختم ہوں گے اس حوالے سے فی الحال کوئی بھی کچھ کہنے کی پوزیشن میں دکھائی نہیں دیتا ، وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے گزشتہ روز ملکی صورتحال کا جائزہ لینے والے ایک اجلاس سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ہے کہ کسی کوبھی انارکی پھیلانے کی اجازت نہیں دیں گے کسی کوبھی پاکستان کے مفادات اور ترجیحات سے کھیلنے نہیں دیا جا سکتا انہوں نے کہا کہ ملک دشمن نہیں چاہتے کہ پاکستان ترقی کرے ، پاکستان کے معاشی حالات الحمد للہ دن بہ دن بہتر ہو رہے ہیں۔ ادھر وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا کہ پولیس نے گولی کاجواب ربڑ بلٹ سے دیا کانسٹیبل مبشر بلال کے قتل کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دی جائے گی تاہم احتجاجی ریلی کے شرکاء پر حکومتی نرمی کا کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے اور الٹا ان کے ”حوصلے” بڑھ رہے ہیں ، اس صورتحال میں تحریک کے ان رہنمائوں کابڑا ہاتھ ہے جوریلی کے ساتھ موجود ہیں اور حکومت کی جانب سے متبادل مقامات پر احتجاجی دھرنا دینے کی تجاویز کو پرکاہ کے برابر بھی نہ سمجھتے ہوئے ان تجاویز کو جوتے کی نوک پر رکھنے کی حکمت عملی اپنائے ہوئے صرف ڈی چوک پر ہی دھرنا دینا چاہتے ہیں ، اس صورتحال پر وفاقی وزیر خزانہ کا یہ بیان انتہائی اہم ہے کہ احتجاج سے ملکی خزانے کو روزانہ 190 ارب کا نقصان ہوتا ہے ۔ اس دعوے کو اگر وزیر اعظم شہباز شریف کے گزشتہ روز کے بیان کے تناظر میں دیکھا جائے کہ ملک دشمن نہیں چاہتے کہ پاکستان ترقی کرے تو اس میں صداقت تو نظر آتی ہے تاہم روزانہ کی بنیاد پر 190 ارب کے نقصان پرغور کیاجائے توان کی یہ بات سمجھ سے بالاتر دکھائی دیتی ہے یعنی پاکستان کے معاشی حالات الحمد للہ دن بہ دن بہتر ہو رہے ہیں موجودہ حالات میں جب ملک میں ہر طرف آگ لگی ہوئی ہے دھرنوں اور جلوسوں کی وجہ سے روزانہ اتنا بڑا نقصان خزانے کو اٹھانا پڑ رہا ہے تو کہاں کی ترقی اور کیسی بہتری؟ ادھر پاکستان اور بیلاروس کے درمیان اقتصادی معاہدوں کے لئے آئے ہوئے بیلا روس کے اعلیٰ سطحی وفد کے درمیان سمجھوتوں کے موقع پر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پر یلغار سے عالمی سطح پر کیا پیغام جا سکتا ہے اس سے اسلام آباد پر دھاوا بولنے والوں کو کیا سروکار ہو سکتا ہے ، کیونکہ جب وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت تھی تو اس کے سربراہ کی پالیسیاںملکی مفادات کے بالکل برعکس تھیں سی پیک کولپیٹنے اور دوست ملک چین کوناراض کرنے کی پالیسیاں ملک کے اقتصادی اڑان کی بجائے اسے ڈیفالٹ کرنے پرآہستہ آہستہ منتج ہو رہی تھیں ، اور جب تحریک انصاف کی حکومت کو عدم اعتماد کے ذریعے گرایاگیا تو تحریک کے بانی کے بیانات تواتر کے ساتھ ملک کوڈیفالٹ کرنے اوراسے سری لنکا بنانے کے حوالے سے مایوسی پھیلانے کاباعث بنتے رہے دنیا بھرمیںپاکستانیوں کو زرمبادلہ نہ بھیجنے اور بذریعہ حوالہ ہنڈی رقوم کی ترسیل پرزور دیا جاتا رہا تاکہ ملک واقعی ڈیفالٹ کر جائے اب ایک بار پھر اسلام آباد پر یلغار اور سیکورٹی اہلکاروں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں سے اسی مقصد کا حصول ممکن بنانا ہے کہ ایک جانب روزانہ 190 ارب کا قومی خزانے کو خسارہ اٹھانے سے ملکی معیشت کا ستیا ناس کیا جائے جبکہ پورا پاکستان سیل ہونے سے میڈیا رپورٹس کے مطابق اشیائے صرف یہاں تک کہ پٹرول کی ترسیل بھی رک گئی ہے جس کے نتیجے میں جہاں سبزیوں ، پھلوں وغیرہ کی قلت اور قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے تودوسری جانب اگر یہ صورتحال جاری رہی تو قحط جیسی صورتحال جنم لے سکتی ہے مگرایک شخص صرف ذاتی مفادات کے لئے پورے ملک کو ”سیل” کرنے پرتلا ہوا ہے اس ضمن میں تادم تحریر حکومت کی نرم پالیسیاں بالاخر کیا رنگ لاسکتی ہیں اس بارے میں زیادہ سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے حقیقت بھی یہی ہے کہ پاکستان کے 25 کروڑ عوام کو چند ہزار افراد نے یرغمال بنا کر رکھ دیا ہے وہ سیکورٹی اہلکاروں کوگولیاں مار رہے ہیں ان پرگاڑیاں چڑھا رہے ہیں انہیں زدوکوب کر رہے ہیں جن سے سیکورٹی والوں کے حوصلے پست ہونے کے خدشات بڑھ رہے ہیں مگر حکومت کو ہوش نہیں آرہا ہے خصوصاً جب ان جلوسوں کے اندر ہمسایہ ملک کے باشندوں کی مبینہ موجودگی اور ان کی جانب سے بڑھ چڑھ کر حملوں کی رپورٹیں آرہی ہیں مگر حکومت اب بھی مذاکرات سے مسئلے کا حل ڈھونڈ رہی ہے اللہ کرے کہ حکومت کی ”صلح جوئی” کی پالیسی کامیاب ہو ، تاہم زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں اور جن کے تقاضے کچھ اور ہیں۔