ستم بالائے ستم

ملک میں توانائی کے مختلف شعبوں میں عوام کو پڑنے والی ا فتاد سے جن مشکلات کا سامنا ایک عرصے سے کرنا پڑ رہا ہے ان کا کوئی مناسب حل دکھائی دینے کے آثار تک نظر نہیں آتے بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے عوام کولوٹنے کا عمل جاری ہے آئی پی پیز کے ہاتھوں ملک کاخزانہ جس بے دردی سے کئی دہائیوں سے خالی ہو رہا ہے ابتداء میں صرف غیر ملکی آئی پی پیز ہمارے قومی خزانے کا استحصال کرتے رہے مگر ”گھاٹے سے ناآشنا” کاروبار میں بعدمیں ملکی سرمایہ کار وغیرہ بھی شامل ہو گئے اور بعض نے ایک یونٹ بجلی بھی قومی گرڈ کو مہیا نہ کرنے کے عوض اربوں روپے معاوضہ وصول کرنا شروع کیا عوام لٹتے رہے اور آئی پی پیز دنوں ہاتھوں سے خزانہ لوٹتے رہے دوسرا معاملہ پٹرولیم مصنوعات کاتھا جس کی قیمتیں اس وقت بھی بڑھائی جاتی رہیں جب عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں گرتی رہیں اور اگر کبھی”مہربانی”کرکے ان میں کمی کی بھی گئی تو بڑھوتری روپوں میں جبکہ کمی پیسوں میں اسی طرح قدرتی گیس کے شعبے پر بھی آئین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے وفاق نے صوبہ خیبر پختونخوا کو استحصال کا نشانہ بنانے میں کبھی تساہل کا مظاہرہ نہیں کیا، آئین کی شق 158کے تحت صوبہ میں پیدا ہونے والی گیس ترجیحی بنیادوں پر خیبر پختونخوا کودینا لازمی ہے مگر گزشتہ کئی برس سے صوبے کے دیگر علاقے تو ایک طرف صوبائی دارالحکومت پشاور تک کو شدید قلت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور گھروں کے چولہے تک نہیں جلتے ، اب (ازراہ مہربانی ہی سہی) گھریلوصارفین کو سردیوں میں گیس فراہم کرنے کی غرض سے سی این جی سٹیشنز خیبر پختونخوا اور پنجاب میں بند کئے جارہے ہیں اگرچہ اس اقدام سے صورتحال میں گزشتہ برسوں کی طرح بہتری آنے کے امکانات روشن دکھائی نہیں دیتے کیونکہ پچھلے برسوں میں بھی گھریلو صارفین کو صرف تین وقت کے لئے گیس کی فراہمی ممکن بنانے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوئی تھیں اور لوگ بہ امر مجبوری متبادل بندوبست کے تحت ہی گھریلو ضرورت کے لئے مجبور تھے کہیں سلینڈر ، کہیں لکڑی ، کہیں اپلے اور کہیں مٹی کے تیل کے چولہوں سے کام چلایا جاتا رہا ، بہرحال دیکھتے ہیں کہ اس حوالے سے سی این جی سٹیشنز والوں کی حکمت عملی کیا ہو گی ، آیا وہ ایک بار پھر عدالتوں سے رجوع کرتے ہیں یا خاموش رہتے ہیں او ررہ گئے گھریلو صارفین تو ان کو اس عارضی بندوبست سے کوئی فائدہ ملتا ہے یا معاملہ وہی ڈھاک کے تین پات والا رہتا ہے؟۔

مزید پڑھیں:  ڈیجیٹل پنجہ آزمائی