ظلم کی طویل رات

کرم میں کیا ہو رہا ہے اور پشاور و اسلام آباد کی ترجیحات کیا ہیں اس بارے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں سب کچھ نوشتہ دیوار ہے خیبر پختون خوا میں ایک سیاسی جماعت کی حکومت اور مرکز میں اتحادیوں کی حکومت ہونا سیاسی طور پر جداگانہ ہوسکتی ہے مگر بطور ملک یہ حکومت ہی ہیں جن کا کام عوام کا تحفظ اور ان کے مسائل کے حل کے لئے شب و روز کوشاں ہونا ہے کرم کے ایک بڑے حصے میں آگ لگی ہوئی ہے خون کی ہولی کھیلی گئی ہیں جس سے نمٹنا صوبائی حکومت کی اولین ترجیح اور ذمہ داری ہے جبکہ وفاقی حکومت بھی قیام امن کے اقدامات سے بری الذمہ نہیں ہوسکتی کیاکرم کے حالات پر توجہ نظر آتی ہے ہر گز نہیں الٹا صوبائی حکومت اور وفاق دست و گریباں اور سیاسی چپقلش کا شکار ہیں ظاہر ہے اس قسم کے حالات میں تو جہاں داخلی امن کے استحکام کے لئے جملہ وسائل کو بروئے کار لانے کی ضرورت تھی ساری توانائیاں اور حکومتی وسائل داخلی چپقلش کے لئے وقف ہیں جب حکومتی ترجیحات کی یہ صورتحال ہو تو خیر کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے یہاں ترقی و خوشحالی ، تعلیم و صحت ، شہری سہولیات اور بچوں کے مستقبل بارے پر امید کیسے رہا جائے جہاں جان کی امان ہی نہ ملے داخلی معاملات پرقابو ہمارا نہیں ہوتا مگراس کے اعتراف کا بھی ہمیں حوصلہ نہیںیہی وجہ ہے کہ ہم کبھی امریکہ کو مطعون کرتے ہیں اورکبھی سعودی عرب جیسا برادر اسلامی ملک جنہوں نے ہر مشکل وقت میں ہماری دستگیری کی ہے اب اس پر انگلیاں اٹھانے کی نوبت آگئی ہے اگر ہمارے معاملات میں دخل در معقولات حقیقت ہیں تو بھی یہ بلاوجہ نہیں کچھ کمزوریاں ہماری بھی ہوں گی جس کی وجہ سے ہم حکم بجا آوری پر مجبور ہوتے ہیں کچھ ہماری پالیسیاں اور غلطیاں ہوں گی جو ہمارے داخلی مسائل کے بگاڑ کا باعث ہیں دنیا کے دیگر ممالک میں بھی درپردہ پنجہ آزمائی ہوتی ہے بڑے بڑے ممالک میں ایسا ہوتا ہے یہ کوئی انوکھی بات نہیں وہ خاموشی سے اس کا مقابلہ اور توڑ کرتے ہیں مگر ہم امریکہ کا ہاتھ تلاش کرنے لگ جاتے ہیں بدقسمتی سے پاکستان ابتداء ہی سے بہت سے اقتصادی انتظامی اور سماجی مسائل کا شکار چلا آرہا ہے وقت کے ساتھ ساتھ کچھ پر تو قابو پالیا گیا مگر کچھ مسائل گھمبیر ہوتے چلے گئے سب سے تکلیف دہ امر یہ ہے کہ ہماری حکومتیں اور سیاستدان بلکہ جملہ ملکی قیادت اپنے فرائض اور ذمہ داریوں میں ناکامی کا شکار چلی آرہی ہیں اور بجائے اس کے کہ اس پر قابو پایا جائے ہمارے ملک میں بعد کی کیفیت میں اضافہ در اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے حکومتوں کی اقتصادی و معاشی منصوبہ بندی ہر دور میں ناکامی کا شکار رہیں اور اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے ملکی و غیر ملکی قرضوں کا سہارا لیا گیا جس کا انجام یہ ہوا کہ آج ملک میں حکومت نام کو ہے اور پالیسیاں آئی ایم ایف کی چل رہی ہیںملک پرملکی و غیر ملکی قرضوں کے اعداد و شمار اس قدر ہولناک ہیں کہ ان کا تذکرہ کرنے سے بھی دل لرز جاتا ہے آج پاکستان کی اقتصادی و سماجی ترقی میں قرضے ہی سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہیں پاکستان ہر سال ان قرضوں پراربوں روپے سالانہ سود دیتا ہے اور اصلی قرض تو بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے جس سے صرف معیشت ہی نہیں ہماری ملکی خود مختاری بھی دائو پرلگی نظر آتی ہے اسی قرض کی بدولت ہمیں اغیار اور پاکستان کے غیر ہمدرد ممالک کوبھی اپنے بہت سے معاملات میں رسائی دیناپڑتی ہے جس کے گہرے اثرات سے بچنے کی کوئی صورت نہیں۔ ان حالات کے لامحالہ اثرات ہماری آبادی پربھی پڑتے ہیں آبادی کی تعداد اور شرح بھی اپنی جگہ مشکلات کا باعث امر ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں غربت و افلاس ہے لوگ سماجی و اقتصادی مسائل سے بھری زندگی گزارنے پر مجبور ہیں معاشرہ عدم مساوات کا شکار ہے آبادی و معیشت پر کنٹرول صفر ہے اگر ہمیں معاملات کوسنبھالنا ہے تو آبادی اور وسائل میں توازن قائم کرنا ہوگا آبادی اور غربت کا چولی دامن کا ساتھ ہے یہاں 80فیصدلوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اس کے ساتھ مزید نتھی امر تعلیم میں کمی کاہے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ہاں اس ضروری شعبے میں بھی انحطاط ہی کی صورتحال ہے تعلیم کے شعبے کی اہمیت کے تذکرے کی ضرورت نہیں اتنا کہنا کافی ہو گا کہ تعلیم ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جولوگوں کو صبر اور شعور فراہم کرتا ہے اور معاشرہ ترقی کی طرف گامزن ہوتا ہے جس کا ہمارے ہاں بری طرح فقدان ہے جس قسم کے تعلیمی ادارے اور تعلیمی نظام قائم ہے اس سے تو بہتر تھا کہ سرے سے کوئی نظام ہی نہ ہوتا ہمارے ملک کے حالات اس طرح کے ہیں مگر نہ عوام کو اس کا احساس ہے اور حکومت بادشاہوں کی ہو تو ان کو کیا پرواہ کہ عوام جئیں یا مریں بدقسمتی سے ہمارے ہاں کم ہی ایسی حکومت رہی ہے کہ جن کو عوام کے مسائل کا ادراک تھا اکثر حکومتیں یا تو آمروں کی رہی ہیں یا پھر شہزادوں ، ملکائوں اور بادشاہوں کی جن کی خرمستیاں ہیں کہ کم نہیں ہوتیں اور ملک کا یہ حال ہو گیا ہے کہ حالات سے ڈر لگتا ہے کہ آگے کیا ہو ہم نے جیسے تیسے اپنی زندگیاں گزار لیں ہمارے بچوں کا کیا ہونا ہے ۔ اس وقت بھی دیکھیں کہ ملک کے ایک بڑے حصے میں آگ لگی ہوئی ہے کہیں عوام ایک دوسرے پر بھاری ہتھیاروں سے آتش و آہن کی بارش میں لگی ہیں تو کہیں جمہوری حق اور اس کو غیر قانونی قرار دینے کے لئے دفعہ 144 لگا کر پورا ملک اور کاروبار حیات بند کر دی گئی ہے ملک کے دیگر حصوں کے عوام یا تو ان کے حامی ہیں یا پھر لاتعلق لگتا یہی ہے کہ کسی کو بھی ملک و قوم کی مشکلات کا احساس نہیں دل تو کرتا ہے کہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی بے حس کہوں۔
جو ظلم تو سہتے ہیں مگر بغاوت نہیں کرتے

مزید پڑھیں:  غبار دل