لال اے ، لال اے ، بہت زیادہ لال اے ، آپ کچھ اور نہ سمجھیں ، ہمارا کہنے کا مقصد تو ٹماٹروں کی لالی سے ہے ،جوایک بار پھراس قدر ”لال” ہو گئے ہیںکہ اچانک دو تین روز میں ڈھائی سو روپے کلو تک جا پہنچے ہیں ، حالانکہ ابھی حال ہی میں 60 روپے تک کلو کے حساب مل رہے تھے ، پھر سو ایک سوبیس روپے میں ملنے لگے مگر جیسے ہی ایک بار پھر اسلام آباد پر یلغار کی خبریں آنے لگیں ٹماٹروں نے بھی ایک زقند مار کراپنی لالی کا احساس دلا دیا ہے حالانکہ ہم جیسے ہماتڑ لوگ اپنی محدود آمدن میں اتنے”شاہی” ٹماٹروں کی طرف آنکھ اٹھانے کی ہمت ہی نہیں کر سکتے اور جب گلی میں ہتھ ریڑھیوں والے سبزی فروش ٹماٹروں کے نعرے لگاتے ہیں تو ہم ریڑھی کا جائزہ لیتے ہوئے گاڑی کے ایک طرف سبز رنگ کے ٹماٹر تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جونسبتاً سستے بھی ہوتے ہیں اور اگرانہیں کسی ٹوکری میں اخبار میں لپیٹ کر رکھا جائے تو دوتین روز میں ان کا رنگ”نکھرنا” شروع ہو جاتا ہے یعنی ان کے ”گالوں” پر لالی پھیل کر ”لال اے ، لال اے” کا پیغام دینے لگتی ہے یوں غریبوں کے دلدر دور ہو جاتے ہیں ۔ خدا جانے ٹماٹر ہمارے ہاں اس قدر”انجروت” کیوں بنے ہوئے ہیں حالانکہ دیگر علاقوں میں قدیم زمانے سے اس کے متبادل کے طور پر دہی ، آلو بخارا کے علاوہ املی استعمال کی جاتی ہے اور ہانڈی بھی زیادہ سواد والی بن جاتی ہے ممکن ہے اس کا کارن یہ ہو کہ وہ جو شاعر نے کہا ہے کہ
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
شاعر نے تو یہ مصرعہ کسی اورحوالے سے کہا تھا جس پر زیادہ دقیع تبصرہ ”شہد” کا بھی ہوسکتا ہے تاہم ٹماٹر اور ہانڈی کاچولی دامن کا ساتھ ہے بلکہ صدیوں سے یہ تعلق گہرا ہوچکا ہے اس لئے بغیر ٹماٹر کے ہانڈی بے مزہ اور پھیکی پھیکی سی لگتی ہے رہ گئی دہی تو اس کا اپنا ذائقہ ہے اور اس سے بھی ہانڈی نہ صرف بقول بھارتی شیفس کے ”سواد انوساد” کے درجے پرفائز ہو جاتی ہے بلکہ سالن بھی ”گاڑھا گاڑھا” ہوتا ہے البتہ آلو بخارا اور املی کے استعمال سے سالن میں وہ ترشی تو ضرور آجاتی ہے جو ٹماٹروں کے شامل کرنے سے پیدا ہوتی ہے مگر بطور خاص املی کے استعمال سے سالن کا رنگ سیاہی مائل ہو جاتا ہے اور بعض لوگوں کے نزدیک یہ صورتحال قابل قبول نہیں ہوتی ۔مگر یہ جو ہر دو چار مہینے بعد ٹماٹر اپنی ”حیثیت”کا اظہار کرتے ہوئے لوگوں کو پریشان کردیتے ہیں تو عام لوگ بے چارے کہنے پرمجبور ہو جاتے ہیں کہ بقول اکبر آلہ آبادی
بازارسے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں
اب بھارت کے سستے ٹماٹروں اور دنیا کے ایک دو ممالک میں ”ٹماٹر میلہ” کا ذکر کرکے کیوں دل دکھی کیا جائے ہمیں تو ریڈیو کی ملازمت کے دوران چترال میں خدمات کا زمانہ یاد آگیا یعنی جب ہم 1994ء کے آخری مہینے میں بطور سٹیشن ڈائریکٹر وہاں تبدیل ہو کر گئے یہ وہ زمانہ تھا جب سردیوں کے موسم میں لواری ٹاپ روڈ شدید برف باری کے بعد لگ بھگ تین ساڑھے تین مہینے تک بند ہو جاتی تھی اور وادی تک رسائی کاواحد راستہ پی آئی اے کی فوکر پروازیں ہوتی تھیں اور اشیائے خورد ونوش جو برفباری سے پہلے پہلے بھاری مقدار میں پہنچا دی جاتی تھیں وہ بھی آہستہ آہستہ معدومیت کی صورتحال سے ناپید ہوناشروع ہوجاتیں کیا سبزیاں ، کیا گوشت اور مرغیاں کچھ بھی بالاخر ملنا بند ہوجاتا ، ایسے میں ٹماٹر بھی ناپید تو ہوتے مگر اہل چترال نے اس کا توڑ یہ نکالا تھا کہ جب مختلف علاقوں یعنی اپرچترال اور لوئر چترال کے دور دراز دیہات میں ٹماٹروں کی فصل آتی تب نہ صرف تازہ ٹماٹر بازار میں آجاتے بلکہ بھاری مقدار میں یعنی ٹنوں کے حساب سے وہاں کے باشندے ٹماٹر خشک کرکے انہیں سردیوں کے دنوں میں دکانوں پر پہنچا دیتے ، چترال کے ٹماٹروں کی ایک خوبی ان میں ترشی کانسبتاً زیادہ ہونا ہے یوں جب اشیائے خورد ونوش کی کمی ہوجاتی تولوگ ہانڈی میں انہی خشک شدہ ٹماٹروں کا استعمال کرکے کام چلاتے ، اس زمانے میں ہم پشاور کے ایک اہم اخبارمیں قلمی نام سے کالم لکھتے تھے اور ہم نے بارہا سرکار کی توجہ چترال کے مختلف اشیاء کو کمرشل بنیادوں پر ملک کے دوسرے علاقوں تک پہنچانے کے لئے وہاں فوڈ پروسسینگ کی صنعتوں کے قیام سے نہ صرف ان ضائع ہونے والی چیزوں کو کار آمد بنانے بلکہ مقامی طور پر ان صنعتوں کے ذریعے لوگوں کوباعزت روزگار دینے کی بھی تجاویز دیں مگر بدقسمتی سے کسی بھی جانب سے اس پر توجہ نہیں دی گئی ذرا وضاحت کے ساتھ یہ بات کی جائے تو پورے چترال میں ہزاروں ٹنوں کے حساب سے پیدا ہونے والی خوبانی ، توت ، سیب ، اخروٹ ، ٹماٹر اور دیگر متعلقہ فروٹ کو اگرچہ عام لوگ ضرورت کے مطابق خشک کرکے اپنی آمدن بڑھانے اور مسائل کے خاتمے کی کوشش کرتے ہیں مگر اس سے ان کی غربت پوری طرح ختم نہیں ہوتی ، ضرورت اس امر کی ہے کہ مقامی طور پر سرمایہ کار آگے آئیں اور وہاں فوڈ پروسیسنگ اور کیننگ انڈسٹری قائم کرکے چترال کے یہ قدرتی خزانے محفوظ کریں تاکہ لوگوں کو روزگار بھی ملے ، اس سلسلے میں جام ، جیلی ، مربہ جات ، ٹماٹر پیسٹ کو ڈبوں اور بوتلوں میں بند کرکے نہ صرف اچھی خاصی آمدنی کمائی جا سکتی ہے بلکہ ضرورت پڑنے پر ان کی مارکیٹنگ کرکے زرمبادلہ بھی کمایاجا سکتا ہے ، اگرچہ جن دنوں میں ہم اس نوع کے مشورے دیا کرتے تھے ان دنوں تقریباً تین چارمہینے تک لواری ٹاپ بند ہوتاتھا مگراب تولواری ٹنل کا راستہ بھی کھل گیا ہے اور برفباری کے دنوں میں بھی آمدورفت اور اشیائے صرف کی نقل وحمل بہت حد تک آسان ہوگئی ہے ، اس لئے اگر فوڈ پروسسینگ اور فوڈ کیننگ انڈسٹری قائم ہوجائے تو کسی بھی موسم میں وہاں مصنوعات کی نقل و حمل میں کوئی دشواری نہیں ہوگی ہمیں اپنا ہی ایک شعر یاد آگیا ہے جوموقع محل کی مناسبت سے ہے ۔
سمیٹ لیں گے ترے حسن کے بگوگوشے
لٹایئے تو سہی ، بخش دیجئے توسہی
کارخانوں مارکیٹ میں جایئے تو وہاں آپ کو ایران سے ”سمگل شدہ” مختلف مربہ جات ، ٹماٹو پیسٹ ، کیچپ اور لاتعداد دیگر اشیاء مل جاتی ہیں چونکہ ایران نے اپنی فوڈ پروسیسنگ اور کیننگ انڈسٹری کوبہت عروج دیا ہے اس لئے اس سے وہ بے پناہ زرمبادلہ کماتاہے ، ہمارے سرمایہ کاروں اور صنعتکاروں کو بھی اس بارے میں سوچناچاہئے اور صوبائی حکومت کو بھی اس شعبے کو فروغ دینے کے لئے منصوبہ سازی پرتوجہ کرنا چاہئے تاکہ ہم خود کفالت کی منزل کوپانے میں کامیاب ہوسکیں۔ بقول علامہ اقبال
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
Load/Hide Comments