پس چہ باید کرد؟

صورتحال کو ”ولے بہ خیر گزشت” تو ہرگز نہیں کہا جا سکتا بلکہ جس طرح طوفان گزرنے کے بعد کی صورتحال ہو جاتی ہے اور تباہی و بربادی کے آثار ہر جانب بکھرے دکھائی دیتے ہیں ایسی ہی صورتحال اسلام آباداحتجاج کے نتائج سامنے آچکے ہیں احتجاج کی کال کا بالاخر کیا انجام ہوا؟ یہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ، بظاہر تو ایسا لگ رہا تھا کہ دھاوا بولنے والے کامیاب ہو رہے ہیں اب جو خبریں سامنے آرہی ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ درپردہ یا بیک ڈور روابط بھی جاری تھے اور پی ٹی آئی کو آخری حدیں پار کرنے اور احتجاجی دھرنے کے لئے متبادل مقامات کی تجاویز بھی دی جاتی رہیں جن میں سے ایک پربانی پی ٹی آئی مبینہ طور پرراضی بھی ہوگئے تھے مگر بات پھر بگڑ گئی اور ناخوشگوار صورتحال پیش آئی جس کا ہر کسی کو افسوس ہوناچاہئے دوسری جانب احتجاجی جلوس اور ڈی چوک تک پہنچنے کے دوران بیلا روس کے صدر کا اہم دورہ بھی جاری تھا جس میں کئی اہم معاہدوں پر دستخط بھی کئے گئے تاہم پی ٹی آئی کے رہنمائوں کو اس سے کوئی غرض نہ تھی فرار کی راہ اختیار کرنے والوں میں سے ایک کا ٹریک ریکارڈ گزشتہ دھاوے بولنے کے دوران بھی کوئی زیادہ حوصلہ افزا نہیں تھا اورموصوف ادھرڈوبے ادھر نکلے کی تفسیر بنے دکھائی دیتے رہے ، ان لیڈروںکا یہ اقدام اور اپنے ورکروں کو ”سپردم بہ تو” کی کیفیت سے دو چار کرنے سے پارٹی لیڈروں کے نزدیک ورکروں کی اہمیت کا اندازہ بخوبی کیا جاسکتا ہے اگرچہ ایک اور ہنما نے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ ”میں اور علی امین گنڈا پور ڈی چوک جانے کے حق میں نہیں تھے” تاہم اس بیان کو اس مکے یاتھپڑ سے تشبیہ دینے میں کوئی امرمانع نہیں جو جنگ کے بعد یاد آجائے ،اگر وہ یہی بیان اس یلغار کے دوران ہی دے دیتے تو اس کی وقعت ضرور ہوتی ادھر سیکورٹی اہلکاروں کی شہادت کے بعد ان کے جنازوں میں شرکت اور میتوں کو کاندھا دینے میں وزیر اعظم اور آرمی چیف کی بذات خود موجودگی سے حکومتی سطح پر نمٹنے کے حوالے سے سخت ردعمل کی وضاحت ہوتی ہے وزیر اعظم نے اس حوالے سے اپنے بیان میں واضح کیا ہے کہ انتشاری ٹولہ انقلاب نہیں ، خونریزی چاہتا ہے اور یہاں سوال بھی تو پیدا ہو رہا ہے کہ قانون کے تحت قید کسی شخص کودھاوا بول کر چھڑانا کونسے قانون کے تحت انقلاب کہلا سکتا ہے ؟ اس لئے بعض وزراء نے جو یہ کہا ہے کہ پارٹی کے بانی کو عدالتوں سے رجوع کرکے چھڑانے کی راہ اختیار کی جائے تو ہماری دانست میں یہ بالکل درست بات ہے اس کے بغیر دوسری راہ اپنا کر اور زور زبردستی کسی کی رہائی کو انقلاب نہیں قانون سے بغاوت ہی کہا جاسکتا ہے اب حکومت نے احتجاج کرنے والوں سے مذاکرات نہ کرنے کافیصلہ کرکے واضح کر دیا ہے کہ وہ مزید کسی دبائو میں نہیں آئے گی بلکہ تازہ خبروں کے مطابق تحریک انصاف پرپابندی لگانے کے حوالے سے (دم تحریر جب یہ سطور لکھی جارہی ہیں)وفاقی کابینہ کا اجلاس بھی طلب کیا جا چکا ہے جس میں اس پابندی کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ کیا جا سکتا ہے دوسری جانب صوبہ خیبر پختونخوا میں گورنر راج نافذ کرنے کی خبریں بھی سامنے آرہی ہیں لیکن یہ کوئی اچھی صورت نہیں ہو گا بلکہ اس سے تضادات میں مزید اضافہ ہی ہو گا وفاقی حکومت کے اس اقدام کی کوئی اور توجیہہ تونہیں ہو سکتی سوائے اس کے خیبر پختونخوا میں جمہوری حکومت کو ختم کرکے اس مورچے کو خالی کرائے نیز یہاں کے لوگوں کو یہیں محدود رکھا جا سکے تاکہ وہ پھرممکنہ طور پر صف بندی کرکے اسلام آباد پر یلغار نہ کرسکیں اگرچہ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کو اس انتہا تک جانے سے گریز کرنا چاہئے اور درمیان کا کوئی راستہ نکال کر صورتحال کو کنٹرول کرنے پر سوچ بچار کرنی چاہئے تاہم دیکھنا یہ بھی ہے کہ اسلام آباد دھرنا کی ناکامی کے بعد پارٹی کے اندر مزید کیاصلاح مشورے ہوتے ہیں اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور خود اپنے ہی صوبے میں لگی ہوئی آگ کوبجھانے ، دہشت گردی ختم کرنے اور صوبے کے وسائل بے مقصد دھرنوں پرخرچ کرنے کے بجائے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کیا اقدام اٹھاتے ہیں؟۔اس بات کی طرف تونہ احتجاج کرنے والوں اور نہ ہی احتجاج بزور قوت روکنے والوں کی توجہ جاتی ہے کہ ان کے اقدامات ملک و قوم کو کس بھائو پڑتے ہیں ملکی معیشت کا پہیہ کس قدر متاثر ہوتا ہے اور دوبارہ سے ملک کی معیشت کا پہیہ چلنے میں مزید کتنا وقت درکار ہوتا ہے ۔توقع کی جانی چاہئے کہ بعد از بسیارہی سہی اب بھی فریقین اپنی اپنی انا کو ایک طرف رکھ کرمکالمہ کے ذریعے اس تنازعے کو نمٹانے پر آمادہ ہوںسیاسی تنازعات کا حل بزور قوت تلاش کرناوہ سنگین غلطی ہے جس کا خمیازہ ملک اور عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے اور بعد از خرابی بسیار بھی بالاخر ہمیشہ سے اس طرح کے معاملات کا حل مذاکرات کی میز پر ہی نکلنے کا تجربہ اور مشاہدہ ہے تو کیا یہ بہتر نہیں کہ جو ہو چکا اس کا ازالہ تو ممکن نہیں کم از کم آئندہ کے لئے اس طرح کی صورتحال سے بچنے کے لئے مذاکرات اور کچھ لوکچھ دوکی بنیاد پرمعاملہ نمٹا دیا جائے۔

مزید پڑھیں:  جنرل(ر) فیض حمید کا کورٹ مارشل