(گزشتہ سے پیوستہ )اقوام متحدہ کے زیر اہتمام عالمی موسمیاتی تبدیلیوں پر ہونے والی کانفرنس سی او پی 29 آذربائیجان دارالخلافہ باکو میں گلوبل نارتھ (عالمی شمال ) کے معاشی طور پر طاقتور ملکوں کی طرف سے گلوبل ساتھ(عالمی جنوب ) کے غریب و ترقی پذیر ملکوں پر ایک متنازعہ فیصلے کے نفاذ کے ساتھ اپنے مقرر کردہ وقت سے دو دن زیادہ جاری رہنے کے بعد 24 نومبر کو اختتام پذیر ہو چکی ہے۔ امارت ا ور غربت کی درجہ بندی پر قائم ہونے والے عالمی شمال اور عالمی جنوب کے دھڑوں کی گروہی سیاست کی ایک تندو تیز اور کاٹتی ہوئی دھار اس وقت نظر آئی جب کانفرنس کے آخری لمحات میں شمال کی صنعتی و معاشی طور پر انتہائی امیر اور ترقی یافتہ اقوام اور ان کے ہم رکاب تیل پیدا کرنے والی عرب ریاستوں نے 1.5 ٹریلین ڈالر کے موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ جنوب کے غریب اور ترقی پذیر ملکوں اور اقوام کے مطالبے کو 300 بلین ڈالرز کی سالانہ فنڈنگ میں تبدیل کر کے کانفرنس کو اپنے خیال کے مطابق میں خوش اسلوبی سے سمیٹ دیا ۔ کانفرنس کا بنیادی مدعا موسمیاتی مالیات یا کلائمٹ فنانس کا حصول تھا ۔2009 سے یہ فنڈنگ100 بلین امریکی ڈالرز پررک گئی تھی۔ ا س بار فنڈنگ زیادہ کرنے کے مطالبے کی شدت زیادہ ہونے کی وجہ عالمی سطح پر ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں اور ان کے شدید اثرات تھے اس لیے اقوام متحدہ نے اس کانفرنس کو موسمیاتی مالیات کی کانفرنس کا نام دیا تھا ۔ 11 نومبر سے 22 نومبر اور دو دن طوالت کے ساتھ 24 نومبر تک اس تمام عرصے میں کانفرنس کے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں کے 200 کے قریب سربراہان مملکت و حکومت اور حکومتی نمائندے این جی اوز اور دیگر عالمی اداروں کے ذمہ داران صرف اس بات پر مباحثہ کرتے رہے کہ غریب اور ترقی پذیر ملکوں میں جو تباہ کاریاں موسمیاتی تبدیلیوں سے ہو رہی ہیں اس کے عوض ترقی یافتہ ملکوں کو کتنی رقم امداد کے طور پرغریب اور ترقی پزیر ملکوں کو دی جانی چاہیے۔ اس بات کو بھی ضمنی اہم مسلہ کے طور پر بحث کیا گیا کہ معاہدہ پیرس 2015 کی شق چھہ کے تحت دنیا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر زہریلی گیسوں سے بچانے کے لیے کاربن پولیوشن رائٹس کے تحت بنا ئے جانے والے قوانین پرر یاستوں کا اتفاق رائے کاربن کریڈٹ کے ایک فارمولے کے تحت بھی ضروری ہے۔ یعنی ریاستیں جتنی زیادہ کاربن کے اخراج کو مختلف اقدامات کے ذریعے کم کریں گی، اس حساب سے ان کی فنڈنگ میں اضافہ کیا جائے گا۔ اقوام متحدہ کی عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کی کانفرنس اپنی ابتدا ہی سے عالمی شمال اور عالمی جنوب کے دو دھڑوں میں بٹی ہوئی تھی ۔عالمی شمال میں یورپ کی ترقی یافتہ اقوام امریکہ آسٹریلیا برازیل بلیویا اور تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک بشمول چائنا اور جاپان اور جنوبی کوریا وہی نقطہ نظر رکھتی تھیں جس کو کانفرنس کے آغاز پر میزبان ملک آذربائیجان کے صدر الہام علیثز یف نے بیان کیا تھا کہ” تیل وگیس یعنی فوصل فیول خدا کے تحفے ہیں اور دیگر نعمتوں یعنی پانی ہوا اور خوراک کی طرح یہ بھی انسان کی خدمت اور زندگی کو قائم رکھنے کے ذرائع ہیں "۔ او پیک کے تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی تنظیم کے سیکرٹری جنرل ہیتھم الغیاص نے اس بیان کو بہت زیادہ سراہا ۔ ریاستوں کا یہ گروپ کسی بھی طرح فوصل فیول کے ماحول اور موسمیات پر برے اثرات کو بہت زیادہ خاطر میں لانے پر تیار نہیں ہے اور کسی ایسے فیصلے پر کانفرنس کے شرکاء کو نہیں جانے دینا چاہتا تھا جس سے فوصل فیول کے استعمال پر کچھ سختیاں آنے کا امکان ہو اور دوسری جانب اس گروپ کے اندر موجود یورپ امریکہ ، آسٹریلیا اور جاپان فوصل فیول کے استعمال سے ہونے والی موسمی تباہ کاریوں کے عوض ان ملکوں میں موسمی معاملات اور ماحول کی بحالی کے لیے ایک اشاریہ پانچ ٹریلین ڈالر کی سالانہ رقم 2035 تک دینے کو تیار نہیں ہیں ان کا خیال ہے کہ اس ماحولیاتی اور موسمیاتی بگاڑ میں ازالے کے لیے بڑے ملکوں چین، جنوبی کوریا اور عرب پیٹرو اسٹیٹس کو بھی دست د راز کرنا چاہیے ۔یہی وجہ تھی کہ کانفرنس کے ترقی یافتہ ممالک کے نمائندوں نے کانفرنس کے اختتام کے آخری لمحات تک اس رقم کا تعین نہیں کیا تھا جو وہ دینا چاہتے تھے اور جب کانفرنس کے صدر مختار با بایوف نے آخری لمحوں میں اس فیصلے پر دستخط کیے تو فنڈنگ کیے جانے والی رقم کی حد 300 بلین امریکن ڈالر فی سال 2030 تک ترقی پذیر اور غریب ملکوں کے لیے مختص کر دی گئی جو موسمیاتی تبدیلیوں کا بہت زیادہ شکار ہوئے ہیں ۔یہ رقم مطالبہ کی گئی فنڈ کی رقم سے 125 فیصد کم ہے لیکن یہ فنڈنگ اس 2009 سے کی جانے والی 100 بلین ڈالر سے تین گنا زیادہ ہے جو گلوبل نارتھ کے ملک گلوبل سائوتھ کے ملکوں میں موسمی تبدیلیوں کے مقابلے کے لیے رقم فراہم کر رہے ہیں ۔گلوبل سائوتھ کے ترقی پذیر اور غریب ملکوں کی جانب سے کانفرنس شروع ہوتے ہی ان کا سارا فوکس اور توجہ مطالبہ کردہ ایک ٹریلین ڈالر کی رقم تھی اور اس سلسلے میں موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے بگاڑ کا ازالہ و مقابلہ کرنے کے لیے مختلف تجاویز بھی سامنے آئیں ۔ ان میں سب سے زیادہ موثر تجویز عالمی گرین پیس موومنٹ اور ایک دوسری بین الاقوامی این جی او اسٹامپ آٹ پاورٹی کی طرف سے آئی۔ اس میں سی ای او پی 27 میں مصر میں منعقد ہونے والی کانفرنس کے حوالے سے اقوام متحدہ کا فنڈ برائے تباہی وضیاع کا ذکر کیا گیا تھا اور یہ تجویز دی گئی تھی کہ اقوام متحدہ اپنے پلیٹ فارم سے دنیا کی سات بڑی آئل اور گیس کمپنیوں پر کلائمٹ ٹیکس یا موسمیات کا ٹیکس عائد کرے اور ہر سال اس ٹیکس کی مد میں کچھ اضافہ کرتی جائے تو بڑی حد تک نیم ترقی یافتہ یا عدم ترقی یافتہ ملکوں میں موسمیاتی تبدیلیوں سے رونما ہونے والی بدترین صورتحال کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ 13 روز کے دوران کانفرنس کے شرکا نے فنڈنگ اور کاربن کریڈٹ کے حوالے سے پہلے 34 اور بعد ازاں 25 صفحات کا ایک ڈرافٹ تیار کیا جس میں ترقی یافتہ ممالک کی واضح سوچ جھلک رہی تھی اور کہیں بھی ترقی یافتہ ملکوں کی معیشتوں سے ترقی پذیر میعشتوں کو کی جانے والی فنڈنگ کا باقاعدہ اعداد و شمار میں ذکر موجود نہیں تھا ۔جب 24 نومبر کو فنڈنگ کے حوالے سے فیصلہ سامنے آیا تو اس میں صرف 300 بلین ڈالر کی رقم ان تباہ حال معیشتوں کے لیے مختص کی گئی ہے جس کو ایک غیر منصفانہ ڈیل قرار دیا گیا ہے۔ کانفرنس میں کلائمٹ گروپ نے اس فنڈنگ کو سمندر میں پانی کا ایک قطرہ قرار دیا ہے ۔ان کے خیال میں گلوبل ساتھ کے غریب لوگوں کو ایک لائیو بوٹ کی ضرورت تھی لیکن امیر ملکوں نے ان کو لکڑی کا ایک تختہ جان بچانے کے لیے دے دیا ہے۔)جاری ہے(