76.6 ملین ایکڑ رقبہ دنیا کا بہترین نہری نظام ، ملک کے شمال سے جنوب تک بہتا مائٹی انڈس ، چار موسم ، سنگلاخ چٹانیں برف پوش چوٹیاں ، قدرتی وسائل سے مالامال ماحول اور زراعت کے لیے نہایت موزوں زون۔ یہ ہے ہماری پاک سرزمین ۔ زراعت جانوروں پودوں خوراک فائبر حیاتیاتی ایندھن ادویات کے پودوں اور انسانی زندگی کو برقرار رکھنے اور بڑھانے کے لیے استعمال ہونے والی دیگر مصنوعات کی کاشت اور افزائش ہے ۔رب العالمین نے ہمیں زمین اور پانی دونوں وافر مقدار میں دیے ہیں۔ زراعت کیلئے 23.77 ملین ایکڑ رقبہ میسر ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ سارے کا سارا رقبہ زیر کاشت ہوتا ۔ چار سو لہلہاتے کھیت سر سبز و شاداب وادیاں اور وسیع وعریض باغات کا نا ختم ہونے والا سلسلہ ہوتا ۔ افسوس کہ اتنے موافق حالات کے باوجود قابلِ کاشت رقبے کا28فیصد بنجر پڑا ہے ۔ زراعت ہماری معیشت کا بنیادی ستون ہے۔ ملکی جی ڈی پی کا 19فیصد زراعت سے منسلک ہے ۔ زراعت سے متعلقہ
مصنوعات کا ملکی آمدنی میں حجم80 فیصد ہے۔ زرعی شعبہ سے ملکی آبادی کا 42.3 فیصد روزگار وابستہ ہے۔ جدید زرعی سائنس ، پودوں کی افزائش ، زرعی کیمیکلز یعنی کیڑے مار ادویات اور کھاد اور تیکنیکی ترقی سے زرعی پیداوار میں خوب اضافہ ہوا ہے۔ لیکن اس سے ماحول کے ساتھ ساتھ انسانی صحت کو بھی نا قابلِ تلافی نقصان ہوا ہے۔ پاکستانی زراعت میں گندم ، گنا ، کپاس اور چاول بڑی اور اہم فصلیں شمار کی جاتی ہیں ۔ گندم کا زیر کاشت رقبے میں 2.1 فیصد کمی سے پیداوار میں 2 کروڑ 64 لاکھ ٹن کمی واقع ہوئی ہے ۔ پاکستان کو کپاس کی پیداوار کی وجہ سے چاندی کا دیش کہتے ہیں ۔ یہ کپاس پیدا کرنے والا دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے ۔ پاکستان زرمبادلہ کا51 فیصد کپاس سے حاصل کرتا ہے ۔ چاول کی ٹوٹل پیداوار 75-80 لاکھ میٹرک ٹن ہے ۔ ا س سے تو واضح نظر آتا ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ قابلِ کاشت رقبہ ، پانی اور موافق آب و ہوا کے باوجود ہمارا ملک زرعی اجناس کی کمی کا شکار رہتا ہے ۔ زراعت کی زبوں حالی جاننے کے لیے ہمیں ذرا اس کی گہرائی میں جانا ہو گا۔ سب سے اہم مسلہ مہنگا خام مال ہے ۔ کھاد ، ڈیزل اور مہنگا مٹی کا تیل پیداواری لاگت میں اضافے کا سبب ہے۔ زرعی ٹیکس کے علاوہ شعبہ زراعت بہت سارے دیگر ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا ہا ہے ۔ مشرقی دریا بھارت کے حوالے کرنے کے بعد ہمارے ہاں پانی کی کمی یقینی تھی ۔ اس کمی پر قابو پانے کے لیے ہمیں شمالی علاقوں اور مائٹی انڈس ریور پر بہت سارے ڈیمیز بنانے تھے ۔ہم مصلحتوں کا شکار ہو کر ڈیمز نہ بنا سکے۔ نتیجتاً قابلِ کاشت رقبہ میں کمی ہوئی ۔ اس کے ساتھ ساتھ دستیاب پانی کے ضیاع میں بھی ہم نے کوئی کمی نہیں چھوڑی ۔ کھالیں پختہ نہ ہونے سے بہت سا پانی زمین میں جذب ہو کر ضائع ہو جاتا ہے ۔ گرم موسم کی وجہ سے بہت سارا پانی بخارات کی شکل میں اڑ جاتا ہے ۔ صحیح وقت پر زمین سیراب نہ کرنے سے بھی پانی کی کمی واقع ہوتی ہے ۔ اس طرح ٹیل پر موجود اراضی کو مطلوبہ مقدار میں پانی نہیں مل سکتا پلاننگ نہ ہونے کی وجہ سے ہم نے کپاس کی پیداواری علاقہ میں گنا اگانا شروع کیا۔ گنے کی فصل بہت زیادہ پانی مانگتی ہے ۔ اس سے ایک طرف کپاس کی پیداوار میں کمی ہوئی اور دوسری جانب پانی کا بے جا استعمال ہوا ۔ رئیل اسٹیٹ کا کاروبار ہمارے لیے سم قاتل ثابت ہوا۔ دنیا میں نئی بستیاں بنجر اور کم آبادی والے علاقوں میں بسائی جاتی ہیں۔ پاکستان میں سر سبز و شاداب لہلہاتے کھیتوں کو ختم کر کے نئی بستیاں بسائی جاتی ہیں۔ اس سے قابل کاشت رقبے میں ۔ کمی واقع ہوئی ہے ۔ پاکستان میں چینی کی طلب سے زیادہ کرشنگ کر کے زائد چینی کاغذوں میں برآمد کر دی جاتی ہے ۔ پھر مصنوعی قلت پیدا کر کے وہی چینی کاغذات میں درآمد کر لی جاتی ہے ۔ اس سارے عمل میں بہت سارا زر مبادلہ غیر قانونی طور پر ملک سے باہر منتقل کر دیا جاتا ہے ۔ قابلِ کاشت رقبے میں کمی اور نقد آور فصل کی کاشت سے پاکستان میں ہر سال 30 لاکھ ٹن گندم کی قلت ہوتی ہے ۔ یہ قلت مہنگے داموں گندم درآمد کر کے پوری کی جاتی ہے ۔ اس سے قومی خزانے پر ناقابل برداشت بوجھ پڑتا ہے ۔ بھارتی پنجاب میں گندم کی اوسط پیداوار پاکستانی پنجاب سے دوگنی ہے۔ اس کی وجہ وہاں کی پختہ نہریں ہیں۔ پانی ٹیل پر موجود زمینوں تک پہنچتا ہے ۔ انہوں نے نہروں پر چھوٹے چھوٹے ٹربائن انجن لگا کر بجلی کی مقامی ضروریات پوری کی ہیں ۔ اب تو انہوں نے نہروں کو سولر پینلز سے ڈھانکنا شروع کر دیا ہے ۔ اس سے ایک تو بجلی پیدا ہوتی ہے اور دوسرا پانی بخارات بن کر ضائع بھی نہیں ہوتا۔ بھارتی زرعی یونیورسٹیاں ریسرچ میں بہت آگے ہیں۔ روزانہ تجربات سے بیجوں کی نت نئی اقسام دریافت کرتے ہیں ۔ اس سے پیداوار میں اضافہ ہوتا رہتا ہے ۔ پاکستان میں اس وقت 41 پونیورسٹیاں زراعت کی تعلیم سے وابستہ ہیں ۔ اس کے علاوہ ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے بہت زرعی تحقیقاتی ادارے بھی اپنی بساط کے مطابق تحقیقی کام سر انجام دے ہیں ۔اس سلسلے میں حکومتی سطح پر ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے ۔ آئندہ کپاس کے علاقے میں گنے کی کاشت پر مکمل پابندی لگانی چاہیے ۔ ملک میں مزید شوگر ملیں لگانے کی اجازت نہیں دینی چاہیے ۔ انگریزوں نے بہت سے سرکاری زرعی رقبے نجی ملکیت میں دیے تھے۔ یہ رقبے حاصل کرنے والے جاگیردار کہلاتے ہیں ۔ یہ بھی ایک مافیا ہے ۔ یہ زرعی زمینوں پر سانپ بن کر بیٹھے ہیں ۔ نہ خود کاشت کرتے ہیں اور نہ کسی اور کو ایسا کرنے دیتے ہیں۔ یا تو یہ زرعی رقبہ خود کاشت کریں اور اس سے اوسط پیداوار حاصل کریں نہیں تو سرکار ان سے زمینیں واپس لے ۔ یہ زمینیں انہیں انگریزوں سے وفاداری کے انعام میں دی گئی تھیں۔ یہ کوئی جنگ آزادی کے مجاہدین نہیں تھے۔ سرکار ان سے واپس لی گئی زمین ان کاشتکاروں کو پٹے پر دے جو اوسط پیداوار حاصل کر سکیں ۔ عام عوام کو بھی چاہئے کہ وہ سفید زہر کا استعمال ترک کر دیں ۔ روزمرہ کے استعمال میں گڑ کو فوقیت دیں۔ اس طرح قومی دولت شوگر مافیا کے چند گھرانوں میں جانے کی بجائے ہر پاکستانی کے حصے میں آنے گی۔ قیمتی زرمبادلہ کی بچت ہو گی ۔ ملکی زراعت اپنے پاں پر کھڑی ہو گی۔ روزگار میں اضافہ ہو گا۔ زراعت میں خود کفالت ہی خوشحال پاکستان کی ضامن ہے ۔
Load/Hide Comments