فائنل کال کی ناکامی

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ حکومت بیلاروس سے معاہدے کر رہی تھی اور فسادی ہتھیار لے کر دارالحکومت پر حملہ آور تھے۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ2014 سے پہلے اسلام آباد پر چڑھائی کا کوئی تصور تک نہ تھا۔ اسلام آباد میں تحریک انتشار نے فساد برپا کیا۔ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء سلمان اکرم راجا نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں دعویٰ کیا ہے کہ اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے سپورٹرز میں سے کم از کم20 افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ جس میں سے آٹھ کے کوائف موجود ہیں، دیگر کے کوائف آپ کو دے دیئے جائیں گے۔ اس سے قبل پی ٹی آئی کے ہی رہنماء زلفی بخاری نے40 افراد کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا جبکہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے مانسہرہ میں پی ٹی آئی کے کارکنوں سے اپنے خطاب میں کہا کہ اس احتجاج میں سینکڑوں کارکنان ہلاک ہوئے ہیں۔تحریک انصاف کی قیادت کو (اگر کوئی ہے) پورا حق ہے کہ وہ جس طرح بہتر سمجھے احتجاج کی حکمت عملی ترتیب دے لیکن بار بار کی ناکامیوں اور ایک یہ طرز احتجاج اور اس کے ڈرامائی اختتام سے یہ بات ضرور سامنے آتی ہے کہ تحریک انصاف کی سیاسی ناپختگی اور عاجلانہ فیصلے ان کو بار بار مہنگی پڑ رہی ہیں جس کے اثرات اب کارکنوں کی سرعام ناراضگی اور عدم اعتماد کی صورت میں سامنے آنا رہی سہی کسر بھی پوری ہونے کے زمرے میں شمار ہوتا ہے احتجاج کا ڈرامائی اور غیر متوقع اختتام اور کنٹینرمیں بیٹھی قیادت یاپھر شخصیات کا یوں اچانک”مورچہ” چھوڑ کرکارکنوں کو بے یارومددگار چھوڑ جانے کی مصلحت کو سمجھنا مشکل ہے پہلے ہجوم کو ڈی چوک تک لے جانے پر اصرار اور پھر ”پتلی گلی” سے رازدارانہ اور پراسرار طریقے سے نکل جانے کی حکمت عملی کونہ تو تحریک انصاف کے کارکن سمجھ سکے اور نہ ہی اس کو سمجھنے کے لئے کسی عام انسان کی سوچ کافی ہو سکتی ہے اگر اس احتجاج کو ابتداء ہی سے آخری کال اور ”کرو یامرو” میں تبدیل کرنے اور اسے اس طرح موسوم کرنے کی بجائے ایک سیاسی احتجاج ہی کی حد تک رکھ کر اس کے نتائج و عواقب کا خیال رکھا جاتا اور اس سے غیر ضروی امیدیں اور توقعات وابستہ کرنے کے مواقع نہ تراشے جاتے تو شاید حکومت بھی اسے ناکام بنانے کے لئے اس درجے کے انتظامات نہ کرتی بہرحال یہ احتجاج کھودا پہاڑ نکلاچوہا کے مصداق بھی نتیجہ خیز نہ رہی بالکل دیکھا جائے تو ساری محنت ہی اکارت نہ گئی بلکہ کارکنوں کے جذبات کا خون ہوا ان کے اعتماد کو بے پناہ ٹھیس پہنچی اورمخالفین کے حوصلے بلند ہوگئے تحریک انصاف کی عاقبت نااندیش قیادت نے ناکامی اپنے ہاتھوں اپنے نام کر لی اور کامیابی پلیٹ میں رکھ کرحکومت کوپیش کردی۔ اس کے بعد بھی ہوش آنا چاہئے تھا اور پراپیگنڈے کا سہارا لینے سے گریز کرنے کی ضرورت تھی مگرجانی نقصان کے حوالے سے بلا ثبوت جو دعوے کئے جارہے ہیں اس کی حقیقت سامنے آنا شروع ہو گئی ہے کارکنوں کی اموات کے حوالے سے خیبر پختونخوا سے ایک کارکن کی موت اورکفن دفن کی تصدیق ہوتی ہے جبکہ ایک قومی معاصرمیں جاں بحق افراد کی تعداد دو بتائی گئی ہے کسی ہسپتال سے بھی دم تحریر مزید ہلاکتوں کی تصدیق نہیں ہوئی ہے البتہ زخمیوں کی تعداد بہرحال کافی ہے اس صورتحال میں یا تو اس دعوے سے دستبردار ہو جانا چاہئے یا پھر ثبوت سامنے لا کر تصدیق کی جائے ایسا نہ ہونے کی صورت میں دعویٰ خود بخود باطل ہونا فطری امر ہوگا تحریک انصاف کی بکھری قیادت کو فیصلے کا اختیار کن ہاتھوں میں ہے اس کا تعین کرنا ان کا مسئلہ ہے البتہ قیادت میں اچھے خاصے قانون دان موجود ہیں جنہیں معلوم ہے کہ عدالت سے کب رجوع کرنا ہے اور عدالتی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کب کیا جانا چاہئے تحریک انصاف کو ثبوتوں کے ساتھ عدالت سے رجوع کرنے اورعدالتی کمیشن کے مطالبے کے ساتھ ہلاکتوں کے ثبوتوں کو ان کے سامنے رکھنے میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے نیز سوشل میڈیا پر دعویٰ اور بیان بازی کی بجائے قومی میڈیا کو اس حوالے سے ثبوت کی فراہمی بھی موزوں اور قابل قبول عمل ہوگا جسے اختیار کرنے میں تاخیر خود پی ٹی آئی کے مفاد میں نہیں ۔ جہاں تک حکومتی حکمت عملی کا سوال ہے تو اس کی غلطیاں بھی پی ٹی آئی کی قیادت کے فیصلوں سے زیادہ مختلف نہیں بہرحال تحریک انصاف کی بے صبر قیادت نے ان کا کام کافی آسان کر دیا مگراس کے باوجود جس قدر تشدد گولی چلانے اور شہر اقتدار کو پنجاب کی سرحد سے ڈی چوک تک جس طرح کنٹینر لگا کر تحریک انصاف کے احتجاج کی ”کامیابی” کی راہ ہموا ر کی گئی وہ بھی کم جگ ہنسائی کا باعث امر نہ تھا ۔ ایسے میں جانبین کارویہ ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے کے مصداق ٹھہرانے کی پوری گنجائش ہے مگر آخر کب تک؟پاکستان کو درپیش بحرانوں کے سیاسی حل کی طرف تمام اسٹیک ہولڈرز کو آگے بڑھنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس تنازعہ کے دونوں فریقوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کی پوزیشن قابل عمل نہیں ہے اور یہ ملک کو ہر لحاظ سے کمزور کرنے کا باعث ہے سیاسی مخالفین کو کچلنے کا غیر صحت بخش جنون، جو گزشتہ ایک دہائی کے دوران بے قابو ہوا ہے، ملک کو ایک انتہائی تاریک راستے پر لے گیا ہے۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ اس عرصے کے دوران بار بار جمہوری تبدیلیوں کو سبوتاژ کیا گیامختصراً چیزوں کو درست کرنا مٹھی بھر افرادکے ہاتھ میں ہے اور پوری قوم ان رحم و کرم پر ہے۔

مزید پڑھیں:  ''گھر کی خاطر سو دکھ سہہ لیں''