اصولی طور پر تو وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کو کرم کے حالات کے پیش نظر اسلام آباد کی طرف احتجاجی قافلہ لے جانے کی بجائے کرم میں فسادات اور قتل وغارت گری و املاک کی تباہی کی روک تھام کے اقدامات پر توجہ مبذول کرنی چاہئے مگر شاید ان کی حکومتی ذمہ داریوں پر سیاسی مجبوریاں حاوی کی گئی تھیں بہرحال اب وہ ان بندھنوں سے تقریباً کافی مدت کے لئے آزاد ہوچکے ہیں تو ان کو یکسوئی کے ساتھ صوبے میں امن و امان اور خاص طور پرکرم میںمستقل قیام امن کے اقدامات کی طرف متوجہ ہونا چاہئے اگرچہ کرم میں فسادات کا سلسلہ کافی عرصے سے جاری مستقل مسئلہ ہے لیکن ایسے حالات اور واقعات میں شدت سے شدت پیش آتی جارہی ہے کہ علاقائی امن و ہم آہنگی پر آمادہ قوتیں گویا عوام اور حکومتی عملداری سے کہیں زیادہ طاقتور اور بھاری ہوں جن کے پاس بھاری اور جدید اسلحہ اور گولہ بارود ہی کی نہیں تربیت یافتہ افرادی قوت کی بھی کوئی کمی نہیں جس کا ثبوت اچانک اور منظم انداز میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ بتاہی و فسادات کا پیش آنا ہے اس وقت جبکہ حالات کو معمول پرلانے اور متاثرین کی ممکنہ امداد اولین ترجیح ہے جس سے ابتداء ہونا فطری امر ہے لیکن اس کے بعد مستقل قیام امن کے لئے سول اور عسکری قیادت سبھی کو باقاعدہ لائحہ عمل ترتیب دے کر اس پر سختی سے عمل پیرا ہونے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرنا انتہائی ضروری ہے مقامی آبادی اور عمائدین کو بھی یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ بعض سخت اور تکلیف دہ اقدامات پرعملدرآمد کے بغیر حکومتی عملداری کی بحالی اور ان کے جان و مال کا تحفظ ممکن نہیں کرم میں جس طرح کی سنگین صورتحال بار بار پیش آنا معمول بن چکا ہے اس کا تقاضا ہے کہ ایک طویل عرصے تک علاقے میں ٹھوس اور سخت اقدامات کے ذریعے ان عناصر کی تطہیر کی جائے ان کو غیر مسلح کیا جائے اور صورتحال پر پوری طرح نظر رکھی جائے حساس علاقوں میں نگرانی کا مستقل نظام اس وقت تک وضع کیاجائے جب تک علاقہ مکمل طور پر حالت امن میں نہ آئے اورتسلی بخش مدت تک امن برقرار رہے ایسا کرتے ہوئے حکومتی ادارے یکطرفہ ٹریفک چلانے کی بجائے مقامی افراد اور عمائدین کی آراء کو وقعت ضرور دیں تاکہ حکومتی ادارے اور عوام میں ہم آہنگی اور تعاون کی فضا قائم ہو جس کے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔