یہ سطور لکھے جانے کے وقت تک مظفر آباد میں ہوں، مظفر آباد ، ریاست جموں و کشمیر کے پاکستان کے زیرانتظام آزاد کشمیر کا دارالحکومت ہے۔ دریائے جہلم وہ دریائے نیلم کے سنگم پر آباد اس شہر کی تاریخ کتنی قدیم ہے، طالب علم اس بارے کسی کتاب سے استفادہ نہیں کرسکا ورنہ پڑھنے والوں سے اس شہر کا تاریخ کے حوالے سے تعارف کرواتا۔اس بار ایک خاندانی کام نمٹانے کیلئے دو دن کا قیام تھا لیکن ہفتہ23 نومبر کو مظفر آباد سے لاہور جانا ایل او سی (لائن آف کنٹرول)پار کرنے جیسا ہوگیا۔ دیوانگانِ انقلاب کے حتمی احتجاج کی وجہ سے وفاقی حکومت نے راستے بند کردیئے دو دن کا قیام آٹھ دن پر پھیل گیا۔ پچھلے آٹھ دن میں شہر کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا بہت سارے دوستوں سے ملاقاتیں ہوئیں ۔ ریاست کے اس حصے میں جسے تحریک آزادی کشمیر کا بیس کیمپ کہا جاتا ہے، تحریک آزادی کشمیر کے بیس کیمپ آزاد کشمیر میں آزادی کتنی ہے۔ جذبہ حریت کتنا اور خود کشمیر کتنا ہے اس پر بات ہونی چاہئے لیکن نہیں ہوتی اس کی وجہ یہی ہے کہ یہاں بھی کہنے کو سیاسی جماعتوں کی لولی لنگڑی جمہوری حکومت ہے لیکن اصل میں یہ وائٹ ہائوس اور ریڈ ہائوس کے بڑوں اور کارندوں کی حکومت ہے۔ سیاستدان اپنی جماعتوں کارکنوں حامیوں اور ہم خیالوں کی طرف دیکھنے کی بجائے وائٹ ہائوس کی طرف نیچے سے دیکھتے ہوئے ٹوپی گرابیٹھتے ہیں(وائٹ ہائوس بلندی پر ہے)ریڈ ہائوس البتہ چار اور سے گھروں اور دکانوں میں گھرا ہوا ہے۔ مظفر آباد میں آدمی ہیں انسان بھی لیکن مجھے ایسا لگا کہ یہاں گاڑیاں آدمیوں اور انسانوں سے زیادہ ہیں۔ دو دریائوں کے سنگم پر وادی میں آباد یہ شہر کبھی قدرتی حسن، سرسبز نظاروں، صفائی ستھرائی کی وجہ سے شہرت رکھتا تھا اب اس کے حسن کو کنکریٹ سے بنی وہ عمارتیں نگل گئی ہیں جو اونچی نیچی پہاڑیوں کو کاٹ کر بنائی گئی ہیں۔ شہر میں داخل ہونے کے راستے کے علاوہ دائیں بائیں دو بائی پاس ہیں
اس کے باوجود شہر کی وسطی اکلوتی سڑک پر دن بھر ٹریفک کا رش اور دھواں ہی دھواں رہتاہے۔ دریائے جہلم و دریائے نیلم کے سنگم پر واقع دومیل پل سے ایک سڑک شہر کے وسط سے گزرتی ہے دوسری شاہراہ سرینگر ہے۔ پچھلی بار اس شاہراہ سرینگر پر مظفر آباد سے چند کلومیٹر دور محبی و سیدی ذوالفقار حیدر نقوی ایڈووکیٹ کی آبائی قیام گاہ پر ایک شب مکالمہ میں شرکت کی تھی اس بار ان کے لا چیمبر میں دوستوں سے ملاقات ہوئی۔ مظفر آباد سے پاکستان جانے کے دو راستے ہیں اور بھارت کے زیرقبضہ مقبوضہ کشمیر جانے کے سینکڑوں بلکہ ہزاروں راستے لیکن ان راستوں پر ایل او سی(لائن آف کنٹرول ) بھوکی ڈائن کی طرح منہ پھیلائے کھڑی ہے۔ آگے بڑھنے سے قبل ایک واقعہ سن لیجئے۔ مظفر آباد سے اوپر وادی نیلم میں کیرن کے مقام پر بٹوارے کے زخموں سے چور کشمیر کے دونوں حصوں کے لوگ دریائے نیلم کے کنارے آن بیٹھتے ہیں عشروں کے بچھڑے رشتہ دار دریا
کے آرپار سے پیاروں کی دھندلی شکل دیکھ کر خوش ہوتے بلند آوازوں پر دریا کے تیز رفتار پارٹی کی گڑگڑاہٹ اثر انداز نہ ہو تو سلام دعا اور خیرخیریت کے پیغام بھی دور سنائی دیتے ہیں۔ پچھلے برس کیرن کے اس مقام پر مذہبی جنونیوں کے ایک گروپ نے بدمست نعرے بازی سے طوفان اٹھایا ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت نے اپنی سمت میں دریا کے کنارے بیٹھے منقسم کشمیر کے باشندوں کو فورا جگہ خالی کرنے کا حکم دیا۔
چند ابالی لڑکے بالوں کی وجہ سے دونوں جانب کے رشتہ دار دھندلی سی ملاقات سے سال بھر محروم رہے۔ اب سنا ہے کہ دوبارہ سے دریاکے دونوں کنارے آباد ہونے لگے ہیں۔ تصور کیجئے بٹوارے کے سینے پر قائم ایل او سی (لائن آف کنٹرول)کی خاردار تاروں کا۔ مجھے تو اس کا تصور کرتے وقت ایسا لگا جیسے یہ خاردار تاریں میرے سینے میں گاڑے گئے گارڈوں میں پروئی گئی ہیں۔ دو دن اھر جب پاکستانی وزیر داخلہ محسن نقوی نے یہ کہا کہ آزاد کشمیر متنازعہ علاقہ ہے اور اس کے باشندے قانونی طور پر پاکستان کے شہری نہیں اس لئے سوچ سمجھ کر تحریک انصاف کے احتجاج میں شرکت کیلئے اسلام آباد آئیں ۔ تو مجھ سے ایک کشمیری دوست نے کہا شاہ جی” آپ جانتے ہیں کہ پاکستانی وزیر داخلہ کی یہ بات درست ہے لیکن اسے یہ معلوم نہیں کہ بھارتی آئین کے مطابق پاکستان کے زیرانتظام آزاد کشمیر جسے بھارت ، پاکستانی مقبوضہ کشمیر کہتا ہے کہ باسی بھارت کے شہری ہیں۔ اپنے (پاکستانی) وزیر داخلہ کے سطحی بیان پر شرمندہ شرمندہ آنکھیں چراکر یہ تاثر دیتا رہا جیسے میں نے ان کی بات نہیں سنی۔ اس سستی چول کی ضرورت کیا تھی؟ آزاد کشمیر میں آپ کسی سے بات کیجئے وہ شکوئوں شکایات کے دفتر کھول کر بیٹھ جاتا ہے۔ مجھے یہ شکایات اس لئے بھی درست محسوس ہوئیں کہ میں نے کھلی آنکھوں سے دیکھا شہر کی ہر قیمتی جگہ ایجنسیوں یعنی ہمارے اصل مالکان کے قبضہ قدرت میں ہے، کیوں؟ سادہ سا جواب ہے سکیورٹی کے نام پر۔ پچھلے آٹھ دنوں کے دوران آزاد کشمیر کی مخلوط حکومت پر سب سے شاندار جگت نما تبصرہ یہ سنا بھائی یہ سالے بہنوئی کی حکومت ہے۔ بہنوئی وزیراعظم ہے آجکل اور برادر نسبتی آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کا سیکرٹری۔ آزاد کشمیر کی تاریخ میں پہلی بار براہ راست اسمبلی سیکرٹری کی تقرری اس وقت ہوئی جب موجودہ وزیراعظم آزاد کشمیر اسمبلی کے سپیکر ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے اسمبلی کے ڈپٹی سیکرٹریوں سے دریافت کیا اگر میں کسی شخص کو6 ماہ کیلئے اسمبلی کا سیکرٹری
بنادوں تو کوئی اعتراض تو نہیں؟ جواب ملا نہیں جناب بالکل نہیں۔ ارشاد ہوا یہ لکھ کر دے دیجئے غلامانہ ذہنیت نے تحریر لکھوادی پھر یہ ہوا جو شخص گھر سے اسسٹنٹ یا ڈپٹی سیکرٹری بننے کیلئے نکلا تھا بہنوئی کی بادشاہ گری سے سیکرٹری بن گیا اور کئی سال سے قانون ساز اسمبلی کا سیکرٹری ہے۔ چلتے چلتے آپ کو(پڑھنے والوں کو)یہ بھی بتادوں کہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی رواں برس کی کامیاب تحریک نے سیاسی جماعتوں اور مالکوں کو بیکار سی چیزیں بنادیا تھا گو کہ یہ اب بھی بیکار کی چیزیں ہی ہیں لیکن اب مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں اور مالکوں نے جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا مکو ٹھپنے کیلئے شروعات کردی ہیں۔ ایک صدارتی آرڈیننس اس کا ابتدائیہ ہے۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی تحریک نے پی پی پی، مسلم لیگ اور تحریک انصاف کے حکومتی گروپ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ راویان کہتے ہیں سب سے زیادہ نقصان پیپلزپارٹی کو ہوا جس کے ایک وزیر فیصل ممتاز راٹھور اپنی زبان پر قابو رکھنے کے سلیقے سے محروم ہیں۔ راویان تو اس کی کرپشن کے دلچسپ قصے بھی سناتے ہیں لیکن یہ ہمارا موضوع نہیں۔ فیصل ممتاز راٹھور، مرحوم ممتاز راٹھور کے صاحبزادے ہیں۔ ممتاز راٹھور آزاد کشمیر کے وزیراعظم رہ چکے۔ آزاد کشمیر کی جن تین سیاسی شخصیات سے میں نے1980 میں ہفت روزہ جدوجہد کراچی کیلئے انٹرویو کیا تھا ان میں ممتاز حسین راٹھور، صاحبزادہ اسحق ظفر اور عبدالباری خان امیر جماعت اسلامی شامل تھے ۔ تینوں صاحبان وفات پاچکے ہیں ممتاز راٹھور اور صاحبزادہ اسحق ظفر پیپلزپارٹی آزاد کشمیر کے بانیوں میں سے تھے۔ عبدالباری خان نے مسلم کانفرنس سے الگ ہوکر جماعت اسلامی آزاد کشمیر کی بنیاد ڈالی تھی۔ ان تینوں صاحبان کے انٹرویو کیلئے سال1980 میں کراچی سے مظفر آباد کا طویل سفر کرکے آیا تھا۔ کالم کے دامن میں گنجائش نہیں رہی باقی احوال پھر کبھی سہی۔
Load/Hide Comments