بانی تحریک کی جانب سے دی جانے والی فائنل کال کا آخرکار دھڑن تختہ ہوہی گیا۔ احتجاج کی مبینہ ناکامی پر جہاں پی ٹی آئی کی صفوں کے اندر مایوسی کے بادل چھائے ہوئے ہیں، وہاں حکومتی حلقے احتجاج کو کامیابی سے ناکام بنانے پر جشن منارہے ہیں۔ پریس کانفرنسوں اور بیانات کے ذریعے پی ٹی آئی کی سیاسی قیادت اور کارکنان کا مذاق اڑایا جارہاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی سیاسی قیادت کی جانب سے میدان میں اپنے لیڈر کی رہائی تک ڈٹے رہنے اور سر پر کفن باندھ کر جان دینے کے بلند و بانگ دعوے ریاستی جبر کے سامنے محض ریت کی دیوار ثابت ہوئے اور پر جوش کارکنان مایوسی کی حالت میں اپنے اپنے اہداف کو حاصل کئے بغیر گھروں کو لوٹ گئے۔ ہم اس سے پہلے اپنے کالم "کیا تحریک انصاف انقلاب لاسکے گی؟” میں اس بات کی وضاحت کرچکے ہیں کہ پی ٹی آئی عوام کا ایک بھیڑ ضرور ہے لیکن انقلاب کو برپا کرنے کے لئے اس کے کارکنان میں مطلوبہ نظم اور تر بیت کے فقدان کی وجہ سے اپنے اہداف کے حصول میں ناکامی کے قوی امکانات موجود ہیں اور بالکل وہی ہوا۔ پارٹی کے اندر نظم اور تربیت کے فقدان اور ناتجربہ کار سیاسی قیادت کی قیمت اسکے کارکنان کو جانی اور مالی نقصان کی صورت میں اٹھانی پڑی۔ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور اور بانی پی ٹی آئی کی زوجہ محترمہ بشری بی بی کے علاوہ اعلی سطحی قیادت کہیں بھی اسلام آباد کی سڑکوں پر نظر نہیں آئی۔کارکنان سیاسی قیادت کی جانب سے واضح ہدایات نہ ہونے کی وجہ سے تذبذب کا شکار نظر آئے اور یوں ناکام و نامراد ہوکر واپس لوٹ گئے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ حکومت نے عوام کے ساتھ جو کچھ کیا وہ کسی جمہوری حکومت کا رویہ نہیں ہوسکتا اور اس پر طرہ یہ کہ حکومتی اہلکار اس پورے عمل کو اپنے حق میں سیاسی فتح سے تعبیر کرتے
ہوئے اس احتجاج میں حصہ لینے والوں سے سختی سے نمٹنے کے حوالے سے فاتحانہ انداز میں سیاسی بیانات بھی داغتے رہے ہیں۔امر واقعہ یہ ہے کہ حکومتی ناکامی تو اس وقت ثابت ہوگئی جب پورے ملک کی ناکہ بندی کے باوجود پی ٹی آئی کے کارکن اسلام آباد کے ڈی چوک پر دستک دے گئے۔ وفاقی
وزرا اور حکومتی کارندے ٹی وی ٹاک شوز میں وزیر اعلی علی امین گنڈاپور پر کرم میں جاری فسادات کی وجہ سے مسلسل الزام لگاتے رہے کہ انکے اپنے صوبے میں آگ لگی ہوئی ہے اور وہ اسلام آباد پر چڑھائی کیلئے سیاسی جلوس کی قیادت کررہے ہیں۔ لیکن دوسری طرف وزیراعظم اس احتجاج کے اندر شہید سپاہی کی میت کو کاندھا دے کر پوری قوم کو دکھا تو رہے تھے لیکن خود وزیر اعظم اور انکے وزیر داخلہ کو ضلع کرم میں اسی کے قریب جانوں کے ضیاع پر تعزیت کرنے کا خیال تک نہیں آیا۔ وفاقی وزرا کبھی جلوس میں افغان دہشت گردوں کی
موجودگی اور کبھی پاکستانی شہریوں کے ساتھ موجود اسلحہ کوبنیاد بناکر پی ٹی آئی کو ایک دہشت گرد جماعت کے طورپر پیش کرنے کیلئے اخلاقی جواز ڈھونڈتے رہے۔ اور آخر میں وزیر داخلہ کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ قانون نافذ کرنے والے ادروں کو قتل کرنے کے اختیارات بھی دئے گئے ہیں۔ بہرحال جو ہوا سو ہوا۔ اس پورے سیاسی عمل کے اختتام پر ملک کے وزیراعظم سے یہی توقع کی جارہی تھی کہ وہ کھلے دل سے اعلی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سنجیدگی سے پی ٹی آئی کو مذاکرات کی دعوت دینگے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر ملک کو اس سیاسی بحران سے نکالنے کے لئے سنجیدہ اقدامات کرینگے
لیکن پاکستانی عوام کے لئے یہ بات با عث حیرت رہی کہ وزیراعظم کے لب و لہجے میں مزید سختی آگئی اور انہوں نے پی ٹی آئی کو انتشاری ٹولہ کہہ کر سختی سے نمٹنے کا عندیہ دیا ہے۔ حکومتی حلقوں میں پی ٹی آئی پر پابندی کی باتیں گردش کررہی ہیں۔ دوسری طرف خیبر پختونخوا میں گورنر راج لگانے کی باتیں ہورہی ہیں۔ حکومت کو اس بات کا کھل کر ادراک ہونا چاہئے کہ ریاست کی طاقت اپنی جگہ لیکن جب عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اپنی طغیانی پر آجاتا ہے تو تمام بندوں کو خس و خاشاک کی طرح بہالے جاتا ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو بھولنا نہیں چاہئے کہ پی ٹی آئی اس ملک کی ایک بڑی سیاسی حقیقت ہے اور اس حقیقت کو طاقت کے زور سے دبا لینا کسی بھی طورپر دانشمندی نہیں ہے۔ حکومت کو اس وقت اپنے سیاسی حریف پر وقتی فتح حاصل ہوئی ہے اور مذاکرات کی میز پرطاقت کے مقام سے بات کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ سیاسی حکمت اور بالغ نظری کا تقاضا یہ ہے کہ اس موقع کو جانے نہیں دیا جائے اور دل گردے کا مظاہرہ کرتے ہوئے کھلے دل سے اپوزیشن کو مذاکرات کی میز پر دعوت دی جائے۔ اس سے حکومت کا سیاسی قد مزید بڑھے گا۔ اس عمل میں ملک کی ساری سیا سی قیادت کو ساتھ لے کر آگے بڑھا جائے۔ مولانا فضل الرحمن نے خود ہی گزشتہ روز اس عمل کو آگے بڑھانے کیلئے اپنی خدمات کو پیش کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی محمود خان اچکزئی سمیت سیاسی بصیرت کے حامل معتبر سیاسی شخصیات کی خدمات بھی خاصل کی جاسکتی ہیں۔
Load/Hide Comments