سیاسی تقطیب میں شدت

تحریک انصاف کی فائنل کال کی ناکامی کے بعد اندرونی بحران استعفوں اور بعض ا طلاعات کے مطابق قیادت کی بھی تبدیلی کی افواہیں(جس کی تردید کی گئی) کے عالم میں وفاقی حکومت کی جانب سے موقع کوغنیمت جا ن کر گورنر راج کے نفاذ کی تیاریاں اور مشاورت سرمنڈھاتے ہی اولے پڑے یا پھر دیوار کیا گری میرے کچے مکان کے مصداق صورتحال ہے سیاسی جماعتوں کو اس طرح کی صورتحا ل کا سامنا کرنا پڑتا ہے نہ تو گورنر راج کا نفاذ اور نہ ہی کسی پارٹی پر پابندی کافیصلہ سیاسی دنیامیں کوئی انوکھی بات ہو گی البتہ یہ فیصلہ خود حکومت کے لئے مزید مشکلات اور اس کے ساکھ پر اور بھی زیادہ سوالات کا باعث ضرور بن سکتا ہے بہرحال ہمارے تئیں اس وقت تحریک انصاف کو اصل خطرہ باہر سے نہیں اندر سے ہے اور یہ اندرونی کشمکش ہی ہے جو تحریک انصاف کے گرم جوش کارکنوں کے بھی حوصلے پست کرنے کا باعث بن رہا ہے ورنہ کارکن ہر مرتبہ لنکا ڈھا کر ہی پلٹتے ہیں مگر قیادت کہیں کھو جاتی ہے اس مرتبہ نزلہ گرانے کے لئے ایک اور بہانہ بھی میسر آگیا جس سے قطع نظر اگر تحریک انصاف کی قیادت اب بھی صفیں درست پیوست اور کندھے سے کندھا ملانے میں ناکامی کا شکار ہوئی مایوس کارکنوں کو اب یھی حوصلہ نہ ملا تو پھر سفر معکوس شروع ہونے کا خدشہ ہے ۔ تحریک انصاف کو دوہری مشکل یہ درپیش ہے کہ صرف ان کے قائدین ہی جیل میں بند نہیں بلکہ قیادت کے شدید بحران کا بھی شکار ہے اس صورتحال کو ہوا دینے والوں کی بھی کمی نہیں ہوگی ایسے میں چپقلش اور قیادت کا بحران ہی وہ چیلنج ہے جس کا تحریک انصاف میں مقابلہ کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہے تحریک انصاف کے اس مسئلے کا حل مشکل نہیں لیکن اب تک قیادت کی تفویض کے حوالے سے فیصلوں کا جائزہ لیاجائے تو جان بوجھ کر ان عناصر کونظر انداز کیا جاتا رہا ہے جو عرصہ دراز سے اور ابتدائی دنوں سے تحریک انصاف کی جدوجہد میں شریک رہے دیکھا جائے تو اس صفت سے متصف رہنمائوں کی بڑی تعداد خیبر پختونخوا میں نظرآتی ہے جو خود بھی بوجوہ تخلیہ اختیار کر رکھے ہیں یا پھر ان کو کنارے لگادیاگیا ہے صورتحال جو بھی ہے تحریک انصاف کے دھرنوں سے لے کر زمان پارک کے اجتماعات تک خیبر پختونخوا سے ہی وفا نبھائی گئی ہے اب بھی جب تحریک کے قائد پر اسیری کا دور گز ر رہا ہے تو خیبر پختونخوا ہی سے کارکنوں کی بڑی تعداد نے قیادت کی کال پرلبیک کہہ کر ثابت کر دیا ہے کہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی مقبولیت پر کوئی اثر نہیں پڑا البتہ اگر حالات اسی طرح رہے توپھر کارکنوں میں قیادت سے دوری اور کمزور رابطہ کاری کے اثرات کا ظاہر ہونا فطری امر ہو گا۔ بہرحال دوسری جانب وفاقی کابینہ کی اکثریت نے خیبر پختونخوا میں گورنر راج نافذ کرنے کی حمایت کر دی ہے۔ گورنر راج سے پہلے پیپلز پارٹی، قومی وطن پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی سے مشاورت کی جائے گی، وزارت قانون اور اٹارنی جنرل نے وفاقی کابینہ کو اپنی رائے دے دی ہے۔ جواز یہ بنایا جارہا ہے کہ خیبر پختونخوا نے خود2بار وفاق پر چڑھائی کرکے گورنر راج کا جواز پیدا کردیا، وفاق پر چڑھائی میں سرکاری ملازمین اور سرکاری مشینری استعمال کی گئی۔ کابینہ اجلاس میں صرف اس ایک نکاتی ایجنڈے پر غور کیا گیا، سیاسی اتحادیوں اور سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر گورنر راج سے متعلق حتمی فیصلہ کیا جائے گاجبکہ ایڈووکیٹ جنرل آفس خیبر پختونخوا نے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کو گورنر راج کے حوالے سے قانونی رائے دی ہے صوبے میں گورنر راج لگانے کے حالات نہیں ہیں۔ معاشی صورتحال، امن و امان، اندرونی انتشار یا بیرونی خطرہ نہیں ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ رائے میں کہا گیا کہ کرم کے حالات کو جواز بنا کر گورنر راج لگانا بلاجواز ہوگا۔ ماضی میں شمالی وزیرستان سمیت قبائلی اضلاع میں اس سے برے حالات تھے لیکن گورنر راج نہیں لگا۔ ذرائع کے مطابق آئین کے آرٹیکل232سے 235کے تحت کوئی ایسے لوازمات نہیں ہیں کہ گورنر راج لگایا جاسکے۔ہر کسی کی اپنی اپنی دلیل ہے دونوں طرف کا موقف اپنی جگہ البتہ گورنر راج کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے سخت مخالفت کے باوجود اگر یہ تجربہ کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کی سیاسی وعوامی مزاحمت سے ایک نئی صورتحال پیدا ہو گی ممکن ہے معاملات سڑکوں کے ساتھ عدالت کی طرف بھی جائیں اس سے تضادات میں اضافہ ہی ہو گا جس سے بچنے کا بہتر راستہ صوبائی حکومت کو اب سڑکوں پر احتجاج کی بجائے اچھی حکمرانی اور عوامی مسائل کے حل کی طرف متوجہ ہونا ہے اور حکومت کااصل اور بنیادی کام بھی یہی ہے صوبائی حکومت کو اب مزید آبیل مجھے مار سے پرہیز کرنا چاہئے اور وفاق کے ساتھ حکومتی سطح پر معاملات کو معمول پر لانے کی سعی کرنی چاہئے سیاسی جدوجہد اور حکومتی معاملات کو الگ الگ رکھا جائے تو گور نر راج کا جواز نہ رہے گا اور نہ ہی مرکزی حکومت تازہ درد سر تلاش کرنے کی متحمل ہو سکتی ہے بہتر ہوگا کہ معاملات کو ہر دو جانب معمول پر لانے کے حالات پیدا کئے جائیں اور ہر فریق انتہائی اقدام سے گریز کی پالیسی اپنائے۔

مزید پڑھیں:  انسان کی بیگانگی اور معاشرتی لا تعلقی