خیبر پختونخوا میں ایک جانب جہاں گورنر راج کے نفاذ کی افواہیں زیر گردش ہیں صوبائی حکومت کی توجہ داخلی استحکام اور امن و امان پر توجہ سے زیادہ سیاسی لڑائی پر ہے مگر بلائوں نے جب سے انوری کا گھر دیکھا ہوا ہے تب سے اب تک صوبے میں سنگین تر سے سنگین ترین ہوتے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی کرم میں حالات کو معمول پرلانے کی بڑی سطح پر مساعی کے باوجود افسوسناک امر یہ ہے کہ ضلع کرم میں فائر بندی کے حکومتی اعلان کے باوجود جھڑپیں بدستور جاری ہیں اور اس دوران جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد111 سے تجاوزکر گئی ہے جبکہ بگن پر لشکر کشی کے بعد لڑائی پورے کرم میں پھیل گئی ہے۔ بگن علیزئی، ٹالوکنج، جیلامئے، کونج علیزئی مقبل، خار کلے بالش خیل کے علاقوں میں شدید لڑائی جاری ہے۔ بھاری اور خودکار اسلحہ کے استعمال کے باعث مختلف مقامات میں خوف و ہراس پایا جا رہا ہے، متعدد دیہات سے نقل مکانی کا سلسلہ بھی تیزی سے جاری ہے۔یہ وہ صورتحال جو میڈیا میں رپورٹ ہوتی ہے حالات کے حوالے سے میڈیا میں جتنی اطلاعات کی ترسیل ہوتی ہے اور جو کچھ میڈیا ررپورٹ کرتا ہے اگرچہ اصولی طور پر صورتحال کے حوالے سے اس پر اکتفا کرنا ہی اصول کا تقاضا ہے لیکن بادی النظر میں کشیدگی اور صورتحال اس سے کہیں زیادہ کشیدہ اور پیچیدہ لگتی ہے لڑائی کی ابتداء جیسے بھی ہوئی تھی اور اس کی روک تھام میں ناکامی کو انتظامیہ کی بے حسی اور لاچارگی پر جتنا بھی معمول کیاجائے کم ہے مگر اب کی صورتحال آغاز کے مقابلے میں کہیں زیادہ بدتر ہے جہاں پہنچ کر سیکورٹی فورسز کو حالات کوقابو کرنا چاہئے تھا اور علاقے میں کرفیو نافذ کرکے لڑائی کوپھیلنے سے روکنے کی سعی ہوتی صرف جرگوں اور مذاکرات کا سہارا لیا جا رہا ہے اس کی افادیت اور طریقہ کار سے اختلاف نہیں مگرصورتحال اس امر کا متقاضی نظر آتا ہے کہ علاقے میں فوج تعینات کرکے جنگ بندی کرادی جاتی اور لڑائی کو محدود کرکے ختم کیا جاتا مگراب تک اس حوالے سے جن اقدامات کی ضرورت تھی وہ کہیں نظر نہیں آتے جب تک طاقت کے استعمال سے لڑائی روک کرمتحارب گروہوں کو غیر مسلح کرنے کا عمل نہیں کیا جاتا ڈنگ ٹپائو قسم کی سرکاری مساعی کامیاب نہیں ہو سکتیں اور قیمتی انسانی جانوں ا ور املاک کاتحفظ یقینی نہیں۔