پاکستان ایک گنجان آباد ملک ہے جس کی بیشتر آبادی اب شہروں میں رہائش پذیر ہے ۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہے اور ہر برس میں اس شدت آرہی ہے ۔ یہ ملک بہت تیزی کے ساتھ پانی کی کمی کا شکار ہورہا ہے ۔ پاکستان اپنا پانی کشمیر ، گلگت بلتستان ، چترال ، دیر ، سوات کی طرف سے آنے والے دریاؤں سے حاصل کرتا ہے ۔ سندھ اور بلوچستان کا بیشتر علاقہ پانی نہ ہونے کے سبب بنجر ہے ۔ خیبر پختونخوا میںجنوبی اضلاع کو چھوڑ کر پانی کے حوالے سے نسبتاً بہتر ہے مگر چونکہ اس صوبہ میں کاشت کاری بہت ہی محدود پیمانے پر ہوتی ہے اس لیے صوبہ کو اجناس کے لیے دیگر صوبوں کا محتاج رہنا پڑتا ہے ۔زیادہ پانی پنجاب کے استعمال میں آتا ہے چونکہ پنجاب کی زمین زرخیز ہے اور تمام دریااس میں سے ہوکر گزرتے ہیں اس لیے اس کا نہری نظام ایسا ہے جس سے صوبہ کے اچھے خاصے حصے کو پانی مل رہا ہے ۔ لیکن یہ سب سندھ طاس معاہدے تک ہے ۔ ہندوستان بار بار سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے یا پھر پاکستان کے حصے کے پانیوں میں مزید حصہ چاہتا ہے ۔ اس وقت ان تینوں دریاؤں سے پاکستان کو اسی فیصد حصہ معاہدے کی رُو سے ملنا چاہئیے جو عملاً اس سے کہیں کم ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان نے ان دریاؤں پر ڈیمز بنائے ہیں اور کئی جگہوں پر پانی کا راستہ بھی موڑا ہے ۔ اس سے پہلے وہ ورلڈ بنک کی سہولت کاری سے ہونے والے سندھ طاس معاہدے میں تین دریاؤں کا مکمل پانی اپنے قبضے میں کرچکا ہے ۔ان تینوں دریاؤں یعنی ستلج ، بیاس اور راوی کے پانی کی بندش کی وجہ سے ان دریاؤں کے کنارے آباد زمینیں تقریباً بنجر ہوگئی ہیں ۔ بہاولپور اس کی زندہ مثال ہے ۔ ہم اندرونی مسائل اور سیاستوں کی وجہ سے پانی پر توجہ نہیں دے رہے ہیں اور یہ آنے والے برسوںمیں اتنا بڑا مسئلہ بن جائے گا کہ ہمارے پاس جنگ کرنے کے کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں بچے گا ۔ پاکستان میں دریاؤں کے پانی کو محفوظ کرنے اور ان کے بہتر استعمال کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی ۔ ڈیموں کو متنازعہ بنا کر قیمتی پانی کو ضائع کیا گیا ۔ جو ڈیمز ساٹھ کی دہائی میں بنے ہیں ان میں مٹی بھرتی جارہی ہے اور چند برسوں میں ان میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت نصف سے بھی کم رہ جائے گی ۔ دریائے چترال جو افغانستان کے علاقے کنڑ سے گزر کر واپس پاکستان میں داخل ہوتا ہے جسے دریائے کابل کا خود ساختہ نام دیا گیا ہے اس پر افغانستان میں ڈیمز بنے ہیں اور مزید کی تیاری جاری ہے ۔ اس پانی میں بھی مسلسل کمی واقع ہورہی ہے ۔ اگر افغانستان اپنی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے اس دریا سے مزید نہریں نکالتا ہے تو اس سے پورا پشاورویلی مشکلات کی زد میں آئے گی اس لیے کہ دریائے چترال (دریائے کابل) سے اس کے پانی کی ضروریات پوری ہوتی ہیںجس سے یہاں رہنے والے شدید مشکلات کا شکار ہوں گے۔ یہ تو وہ ممکنہ خطرات ہیں جو ابھی حقیقت کا روپ دھار رہے ہیں ۔ دوسرا پہلو جس پر کوئی بھی توجہ نہیں دے رہا وہ ہے بے تحاشا شہروں میں آبادی کا اضافہ، صرف پشاور شہر کی مثال لے لی جائے تو اس کی آبادی اور رقبے میں تین گنا سے زیادہ اضافہ حالیہ چند برسوں میں ہوا ہے ۔ جس رفتار سے آبادی بڑھ رہی اس حساب سے شہر کے لیے پانی کا انتظام نہیں کیا جارہا ۔ لے دے کر ایک ہی ذریعہ ہے ورسک ڈیم کا ۔ اگر موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے حدت میں اضافہ ہوتا ہے اور سیلابوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے تو اس پانی میں بہت زیادہ کمی واقعی ہوگی ۔ اگر یہ سلسلہ شدت اختیار کرتا ہے اور گلاف ٹوٹتے ہیں یعنی سینکڑوں میلوں پر پھیلے ہوئے برف کے ذخیرے ٹوٹ
پھوٹ کا شکار ہوتے ہیں تو اس سے جو تباہی سیلابوں کی صورت میں آئے گی وہ تو ایک طرف مگر اس کے نتیجے میں دریاؤں میں پانی کا بہاؤ نصف سے بھی زیادہ کم ہوجائے گا ۔ جس سے نشیبی علاقوں میں موجود تمام قدرتی چشمے سوکھ جائیں گے اور زیر زمین پانی کی سطح بہت زیادہ گر جائے گی ۔ یہی صورتحال گلگت بلتستان میں پیش آئے گی تو اس کا اثر ہزارہ اور پھر براہ راست پنجاب پر پڑے گا ۔ ڈیم سوکھ جائیں گے اور کروڑوں افراد کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہوگا ۔ یہ وہ خدشات ہیں جو اس فیلڈ کے عالمی ماہرین اور دنیا بھر کے یونیورسٹیوں میں موجود محققین جس کا اظہار کررہے ہیں ۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے چونکہ پاکستان بری طرح متاثر ہورہا ہے اس لیے وہ بغور پاکستان کے موسمیاتی حالات اور اقدامات کا جائزہ لے رہے ہیں ۔ اب چونکہ سیٹلائٹ سے ان جگہوں کا نظارہ بہت آسانی کے ساتھ ہوتا ہے اور سائنس کی ترقی نے اس میں مزید بہتری پیدا کی ہے ۔ لیکن ہمارے ملک میں اس مقصد کے لیے بنائے گئے محکموں اور وازرتوں میں بیٹھے ہزاروں لوگ اس حوالے سے کچھ بھی نہیں کررہے ۔ موسمیاتی تبدیلیاں ،ماحول ، پانی اور زندگی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ۔ پاکستان پہلے سے شدید مالی پریشانیوںکا شکار ہے ایسے میں ان معاملات پر چشم پوشی کرنا مناسب نہیں ہے ۔ ہندوستان کے ساتھ پانی کے مسائل ہوں یا افغانستان کے ساتھ ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اپنے مفاد کا ہر حال میں بروقت تحفظ کرنا چاہئیے اور دریائی اور بارانی پانیوں کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرنا چاہئیے اور قیمتی میٹھے پانی کو سمندر میں ڈالنے کے بجائے اس کو دنیا کے ممالک کی طرح موڑ کر اس سے سندھ کے بنجر علاقوں کو سیراب کرنے کی ضرورت ہے ۔ آئی ایم ایف کی حالیہ رپورٹ میں پاکستان کو
دنیا کا تیسرا ملک قرار دیا گیا ہے جہاں پانی کی قلت ہے ۔ اس کا سبب ماضی میں پانی ذخیرہ نہ کرنا اور اس سلسلے میں منصوبہ بندی کا فقدان ہے ۔ اور ساتھ ہی پاکستان کا زیادہ تر پانی ضائع ہوجاتا ہے۔ پاکستان جب بنا تو اس وقت اس کے ہر شہری کو پانچ ہزار چھ سو کیوبک پانی دستیاب تھا جو اب صرف اٹھ سو کیوبک پانی فی کس تک آگیا ہے ۔ چند برسوں میں یہ مقدار دو ڈھائی سو کیوبک رہ جائے گی ۔ یہ اتنا بڑا مسئلہ ہے کہ اگر بروقت اس کا تدارک نہ کیا گیا تو چند برسوں بعد پاکستان کے بیشتر علاقوں میں زندگی مفقود ہوجائے گی اور لوگ ان علاقوں سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوں گے اس طرح شہروں پر دباؤ بڑھے گا جہاں پہلے ہی پانی کی شدید قلت ہے اور مزید پیدا ہورہی ہے ۔ بڑے شہروں میں پانی کی زیر زمین سطح میں مسلسل کمی واقعی ہورہی ہے ۔ ماسوائے اسلام آباد کے کسی بھی دوسرے شہر کے لیے پانی کا انتظام تسلی بخش نہیں ہے ۔ شہروں کے اطراف میں نئی ہاوسنگ سوسائیٹیزبن رہی ہیں ۔ لیکن حکومت کے ادارے ان سے یہ نہیں پوچھتے کہ وہ پانی کہاں سے لائیں گے ۔ اگر اسلام آباد اور پشاور کے اطراف میں جو ہاوسنگ سوسائیٹیاں بن رہی ہیں اگر واقعی بن جاتی ہیں تو یہ سب سے بڑا سوالیہ نشان ہوگا کہ ان کو کہاں سے پانی دیا جائے گا ۔ کیا زیر زمین پانی اتنا ہے ہے کہ اس سے ان کی ضروریات پوری ہوسکیں ۔ یہ وہ سوال ہیںجو کوئی نہیں پوچھتا اور دفتروںمیں بیٹھے بابو اپنے حصہ لے کر دھڑا دھڑا این اوسی جاری کیے جارہے ہیں اور بیشتر سکیمیں تو این او سی کے بغیر بھی عمارتیں تعمیر کررہے ہیں ۔ اگر موسمیاتی حالات وہی رہتے ہیں جن کی پیشنگوئی عالمی ماہرین کررہے ہیںتو ہمیں اس سلسلے میں شدید فکر مندی کی ضرورت ہے اس لیے کہ ان حالات کا سب سے بڑا اثر پانی پر پڑے گا ۔ اور پانی ہے تو زندگی ہے ۔ اگر آپ کو یہ بات سمجھنی ہے تو ذرا ان علاقوں کی تاریخ نکال کردیکھیں جو کبھی آباد ہوا کرتی تھیں اور پانی نہ ملنے کی وجہ سے اب کھنڈر بن چکے ہیں، اسپین ، اسڑیلیا اور کئی دیگر ممالک میںپانی نہ ہونے کے سبب بڑی بڑی آبادیاں خالی ہوگئیں۔
Load/Hide Comments