قابل غور

میں اکثر اپنے طلبہ وطالبات اور اپنے سننے والوں سے یہ سوال کرتا ہوں کہ مجھے ہمارا کوئی ایک معاملہ ایسا بتا دیں جو درست ہو اور ہم اس پر فخر بھی کر سکیں، آج آپ سے بھی یہ سوال کرتا ہوں، مذہب، سیاست، معیشت، تعلیم یا دیگر کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں جو مثالی ہو اور یہی عالم ہماری صحت کا بھی ہے، ہم صحت کے حوالے سے ترقی پزیر ملکوں میں شامل ہیں اور انفرادی اور اجتماعی سطح پر صحت کبھی بھی ہماری ترجیحات میں شامل نہیں رہی ہے، کتنی شرم اور افسوس کا مقام ہے کہ نوزائیدہ بچوں کی موت کی شرح میں پاکستان دنیا بھر میں تیسرے درجے پر ہے اور صحت کی سہولیات کے حوالے سے پاکستان کادرجہ ایک سو بائیسواں ہے جو پھر باعث افسوس ہے، یوں تو ہم کئی قسم کی بے شمار بیماریوں کا شکار ہیں لیکن میں یہاں صرف چند کا ذکر کرتا ہوں، سب سے پہلے ملیریا جو کہ مچھروں کے سبب لگنے والی خطرناک بیماری ہے، ہماری آبادی کا ایک بڑا حصہ غربت کے نشان سے نیچے کچی آبادیوں میں زندگی گزارتا ہے جہاں گندگی اور کچرے کی وجہ سے مچھر بھی زیادہ ہوتے ہیں جو ملیریا اور ڈینگی جیسے موذی امراض کا سبب ہیں، اس کے علاوہ دنیا بھر میں ٹی بی کے مریضوں کی تعداد میں بھی ہمارا پانچواں درجہ ہے، دنیا کے بہت
سارے ممالک میں یہ مرض ختم ہو چکا ہے مگر ہمارے ہاں اس بیماری کے مریضوں میں مستقل اضافہ ہو رہاہے، اس کے علاوہ دماغ کی شریان کے پھٹ جانے کی صورت میں فالج کا ہو جانا پاکستان میں ہونے والی بڑی بیماریوں میں سے ایک ہے، ہر سال ساڑھے تین لاکھ افراد کی دماغ کی شریان کے پھٹ جانے کے سبب یا تو معذور ہو جاتے ہیں یا پھر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، اسی طرح پاکستان میں ذیابیطس میں مبتلا افراد کی تعداد اس
وقت ستر لاکھ تک ہے اور اس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، ماہرین کے مطابق اگلے چھ سال تک پاکستان کا شمار ذیابیطس کے حوالے سے دنیا میں پہلے پانچ درجوں میں ہو گا، اس کے علاوہ دل کے امراض میں بھی حالیہ برسوں میں پاکستان میں کافی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، اس کا ایک سبب وراثتی مسائل ہیں تو دوسری وجہ غیر صحت مند طرز زندگی ہے، اور یہ معاملہ صرف دل کے امراض کے ساتھ نہیں ہے بلکہ ہر بیماری کے دو اہم اسباب ہیں ایک ہماری ناقص غذا اور دوسرا ورزش نہ کرنا اور اسی کو غیر صحت مند طرز
زندگی کہتے ہیں، آپ خود سے سوال کریں کہ آپ ورزش کے معاملے میں کس قدر سنجیدہ ہیں، ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ ورزش ہماری صحت کے لئے کس قدر ضروری ہے، ورزش کو معمول بنانے سے نہ صرف جسمانی صحت درست رہتی ہے بلکہ ذہنی صحت بھی بہتر ہوتی ہے، کون نہیں جانتا کہ ورزش کے بے شمار فائدے ہیں جیسے کہ وزن میں کمی، دل کے امراض سے تحفظ، ذیابیطس اور دیگر دائمی امراض کا خطرہ کم ہوتا ہے اور اسی طرح ورزش نہ کرنے کی وجہ سے ہمیں صحت کے جن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان میں قبض، جوڑوں کا اکڑ جانا، سانس پھولنا، ذہنی تناؤ، ہر وقت کی تھکاوٹ، نیند کی کمی، یاداشت میں کمی، فشار خون، ذیابیطس، کمر درد، زیادہ بھوک لگنا، موسمی بیماریوں کا شکار ہونا اور ایسے کئی مسائل شامل ہیں، میری عمر کے سب لوگ جانتے ہیں کہ ہمارے بچپن میں غذا سادہ اور خالص ہوا کرتی تھی، ورزش کا اگرچہ اتنا رجحان نہیںتھا لیکن موبائل بھی نہ تھا تو جسمانی کھیل کود بہت تھا اور اس کے علاوہ ایک بہت ہی اہم اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہر گھر میں سائیکل ضرور ہوا کرتی تھی، بچے، جوان اور بوڑھے سب ہی اپنے کاموں کے لئے سائیکل کا بکثرت استعمال کرتے تھے، اب ایک جانب ہماری غذا ناقص اور غیر خالص ہو گئی ہے، ورزش ہم نہیں کرتے اور سائیکل چلانے کا رجحان بھی تقریبا ختم ہوا چاہتا ہے، قارئین
کرام سائیکل ایک سادہ، سستی، قابل اعتماد، صاف ستھری اور ماحولیاتی لحاظ سے پائیدار ذریعہء آمدورفت ہے، جو ماحولیاتی انتظام اور صحت کو فروغ دیتی ہے، قریبا دو صدیوں سے استعمال ہونے والی سائیکل کی اہمیت، انفرادیت اور استعداد کو تسلیم کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ہر سال تین جون کو دنیا بھر میں سائیکل کا عالمی دن قرار دیا ہے، جس کا مقصد جسمانی صحت اور ماحول کی بہتری ہے، کہتے ہیں کہ سائیکل دنیا کی سب سے مفید اور کارآمد مشین ہے، اور اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ یہ آپ کی صحت کے لئے سود مند ہے، اس کے علاوہ یہ ماحول دوست ہے، اسی طرح یہ انتہائی کم خرچ بھی ہے، قارئین کرام یہ تو سائیکل کے چند فوائد ہیں لیکن آج کے دور میں اس کے کچھ نقصانات بھی ہیں، بچپن میں تو سب ہی کو سائیکل چلانے کا شوق ہوتا ہے، میں بھی چلاتا رہا ہوں اور یہ سلسلہ بیرون ملک قیام کے دوران بھی جاری رہا اور پاکستان واپسی پر بھی یہ سلسلہ رکا نہیں، کچھ توقف ضرور ہوا اور حال ہی میں میں نے دوبارہ سے یہ سلسلہ شروع کیا ہے، اپنے چھوٹے موٹے کاموں کے لئے میں سائیکل ہی استعمال کرتا ہوں، بلکہ یونیورسٹی بھی سائیکل پر ہی جاتا ہوں، نقصان یہ ہے کہ گاڑی پر جانے والے سے گاڑی کے حجم اور قیمت کے حساب سے سلوک کیا جاتا ہے ۔

مزید پڑھیں:  کرم کے حالات میں بہتری کے تقاضے