نیا نیشنل ایکشن پلان لانا ہوگا

دہشت گردی پرقابوپانےکیلئےنیا نیشنل ایکشن پلان لانا ہوگا،بلاول

ویب ڈیسک: پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے نیا نیشنل ایکشن پلان لانا ہوگا ۔
سکھر میں پیپلزپارٹی کے 57ویں یوم تاسیس کے حوالے سے منعقدہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ملک میں سیاسی استحکام ضروری ہے، چاہے اس کے لیے حکومت اور اپوزیشن بات چیت کرے یا پھر لاٹھی کا استعمال کرنا ہو۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا سیاسی سفر قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو سے شروع ہوا، جنہوں نے پاکستان میں جمہوریت کی بنیاد رکھی اور سرزمین بے آئین کو متفقہ آئین دیا، عوام ذوالفقار علی بھٹو کی جدوجہد اور منشور کو آج بھی پاکستان کے تمام مسائل کا حل سمجھتے ہیں۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کو سب سے پہلی معاشی پالیسی دلوائی، روٹی کپڑا مکان کا نعرہ اور تاریخی اصلاحات کر کے امیروں کے بجائے عوام، کسان اور مزدوروں کو فائدہ پہنچایا،بھٹو نے جمہوریت، آئین، عوام دوست انقلاب کی بنیاد کے ساتھ پاکستان کو ایٹمی ہتھیاروں کا تحفہ دیا، دنیا بھر میں آج بھی کوئی پاکستان کو میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا مگر افسوس کے ساتھ عوام کے منتخب وزیراعظم کو عدالتی قتل کے ذریعے شہید کیا گیا ۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ عوام کے ساتھ اور کارکنان کی جدوجہد کی وجہ سے پیپلزپارٹی بے نظیر بھٹو کی صورت میں زندہ رہی اور پھر ایک نہتی لڑکی نے دو آمروں کا مقابلہ کیا، انہوں نے دنیا کی پہلی مسلم خاتون اور نوجوان وزیراعظم بننے کا اعزاز حاصل کیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر بے نظیر بھٹو کو شہید نہ کیا جاتا تو وہ تیسری بار بھی وزیر اعظم ہوتیں وہ عوام، مزدور، کسان کی نمائندگی کرتی تھیں اور وہ ہمیشہ اپنے دور میں عوامی فائدے کی پالیسیز لاتی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ کچھ لوگوں کی سوچ تھی کہ بے نظیر کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی ختم ہوجائے گی مگر پھر صدر زرداری کی قیادت میں پیپلزپارٹی متحد ہوئی اور پھر ہم نے وہ کامیابیاں حاصل کیں جو ماضی میں نہیں کرسکے تھے، اٹھارہویں ترمیم منظور کروا کے ہم نے بے نظیر کی دیرینہ خواہش پوری کی اور وعدہ پورا کیا۔
زرداری نے پاکستان کو سی پیک جیسا تحفہ دیا، انہوں نے سرحد کو پختونخوا کا پروگرام دلوایا، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کر کے روٹی کپڑے اور مکان کے وعدے کو پورا کیا جس سے غربت کا مقابلہ کیا جارہا ہے جبکہ وسیلہ روزگار سے نوجوانوں کو روزگار فراہم کیا۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ صورت حال میں سب سے زیادہ اور اہم ذمہ داری پیپلزپارٹی پر ہے کہ نہ صرف ہماری صوبائی حکومتی جو بلوچستان، سندھ، خیبرپختونخوا اور پنجاب میں ہیں وہ اپنی مدت مکمل کریں۔
بلاول نے کہا کہ پیپلزپارٹی کی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھی اہم ذمہ داری ہے، الیکشن میں عوام نے ن لیگ سمیت باقی کسی سیاسی جماعت کو اکثریت نہیں دی، پھر پی پی کو فیصلے کی ذمہ داری ملی تو ہم نے سی ای سی کا دو روزہ اجلاس کر کے فیصلہ کیا کہ ملک کو معاشی اور دیگر مسائل سے نکالنے کیلیے اتحادی حکومت قائم کی جائے اور اپوزیشن جماعتیں حکومت سازی میں بھی سنجیدہ نہیں اور کوئی دلچسپی نہیں دکھا رہے تھے ان کی بس ایک ہی خواہش اپنے قائد کو جیل سے نکالنا تھی۔
پی پی چیئرمین نے کہا کہ ملک کے مسائل کا حل اور مقابلہ کرنے کی ہمت سیاسی جماعتوں کے پاس ہے، اس وقت ملک کا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ ملک میں سیاسی عدم استحکام ہے کیونکہ جب تک سیاسی استحکام نہیں ہوگا تب تک معاشی استحکام، امن و امان بہتر نہیں ہوگا اور معیشت کو فائدہ ہوتا ہے مگر کسی نہ کسی وجہ سے سیاسی استحکام متاثر ہوتا ہے جس کا نقصان عوام، ملک اور جمہوریت کو ہورہا ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ میری تمام سیاسی جماعتوں اور کارکنان سے درخواست ہے کہ وہ ملک میں جمہوریت اور آئین کی بالادستی کی جدوجہد کریں کیونکہ باقی مسائل کا مقابلہ سیاسی استحکام کے بعد ہی ہوسکتا ہے، سیاسی استحکام کی بڑی وجہ اپوزیشن ہے کیونکہ وہ جمہوری اور سیاسی حزب اختلاف کے طور پر سامنے نہیں آرہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان کی کچھ سیاسی جماعتیں سیاسی دائرے میں رہ کر سیاست نہیں کررہی، 9 مئی جیسا واقعہ سیاست نہیں، اسلام آباد میں جو بھی ہوا وہ سیاست نہیں ہے، اداروں کو آئینی کردار تک محدود رکھنے کیلیے سیاست دان کو سیاسی دھارے میں آنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ سیاست دان کو بات چیت کے ذریعے مسئلے حل کرنا چاہیں، ہماری خواہش ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کردار ادا کر کے ملک میں سیاسی استحکام کو قائم کریں، اس میں حکومت کی ذمہ داری زیادہ ہے۔
بلاول نے کہا کہ اپوزیشن کی کچھ جماعتیں سیاسی اپوزیشن اور مخالفت کرنا چاہتی ہیں جبکہ غیر سیاسی اور غیر جمہوری اپوزیشن کا رویہ مختلف ہے، جو اپوزیشن جمہوری اور سیاسی رویہ اپنائے گی اسے ایسے ہی جواب دیا جائے گا، اگر اپوزیشن کا رویہ سیاسی اور غیر جمہوری ہوا تو حکومت ویسے ہی جواب دے گی۔
بلاول نے کہا کہ ہم ہمیشہ مذاکرات اور بات چیت کی بات کرتے ہیں مگر اپوزیشن سیاست جماعتوں سے نہیں اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات چاہتی ہے، اگر یہی طرز سیاست رہا تو پی ٹی آئی اور ملک دونوں کو نقصان ہوگا۔
پی پی چیئرمین نے کہا کہ حکومت نے پی ٹی آئی پر پابندی اور خیبرپختونخوا میں گورنر راج نافذ کرنے کے حوالے سے کوئی رابطہ نہیں کیا، اگر حکومت نے رابطہ کیا تو کوشش کریں گے کہ اتفاق رائے سے فیصلہ کیا جائے۔
انہوں نے واضح کیا کہ پیپلزپارٹی ہمیشہ ملک اور عوام کے مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کرے گی،ملک میں دہشت گردی کا مسئلہ بہت سنجیدہ ہے اور ہمیشہ پیپلزپارٹی نے اس معاملے پر آواز بلند کی اور اپنے دور میں اسٹیٹ کی رٹ بحال کی۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ امن و امان کے مسئلے پر سیاست کی جارہی ہے، جب ماضی میں ہم دہشت گردوں کو شکست دے سکتے ہیں تو پھر ایک بار پھر متحد ہوکر ملک سے دہشت گردوں کو شکست دے سکتے ہیں، ملک کے عوام کو زندگی کا تحفظ ضروری ہے۔
پی پی چیئرمین نے کہا کہ حکومت کبھی نہیں چاہتی کہ کسی واقعے میں کوئی شہری کی جان جائے، ہمیں امید ہے کہ وفاق اور صوبائی حکومت ملکی مفاد کیلیے اپنا کردار ادا کریں گے، ہمیں ملکر دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کیلئے نیا نیشنل ایکشن پلان لانا پڑے گا اور ایک متفقہ فیصلہ کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا کے حالات بہت سنگین ہیں، امن و امان کی وجہ سے ایمرجنسی بحران پیدا ہوتا جارہا ہے، پارا چنار کے حالات کو سوشل میڈیا اور عالمی میڈیا دکھا رہا ہے، صوبائی حکومت رٹ بحال کرنے کے بجائے وفاق پر چڑھائی کررہا ہے۔
بلاول نے کہا کہ وزیراعلی آج بھی اسمبلی میں کھڑے ہو کر وفاق پر گولی چلانے کی دھمکی دے رہا ہے، ہم کب تک یہ برداشت کریں کہ پاکستان کے اصل مسائل کچھ اور ہیں، پختونخوا میں 100 سے زیادہ لاشیں موجود ہیں اور یہ اسلام آباد میں اپنی 100 لاشیں تلاش کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ کرم میں وفاق کی مدد سے امن و امان قائم کرے، اگر اس میں وہ سنجیدہ نہیں اور صرف اپنے لیڈر کی رہائی، این آر او دلوانا ترجیح ہو تو پھر انہیں صوبائی حکومت کو چھوڑ دینا چاہیے۔
بلاول نے کہا کہ مجھے امید ہے صوبائی حکومت اپنی غلطی کو تسلیم کر کے اب عوامی مسائل پر توجہ دے گی اور اب ہر دوسرے دن احتجاج کے نام پر انتشار پھیلائیں گے، احتجاج کا پاکستانی کا حق ہے، مگر قانون ہاتھ میں لینا اور لشکر کشی کی اجازت کسی صورت نہیں ہے۔

مزید پڑھیں:  ملکی زرمبادلہ ذخائر 16 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے