ناکامی ا پنی کٹہرے میں پنجاب؟

پاکستان تحریک انصاف کے ممبران صوبائی اسمبلی نے اسمبلی میں اپنی تقریروں میں 26نومبر کے احتجاج پنجاب کی قیادت کی کارکردگی کو صفر قرار دینا اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کی کوشش لگتی ہے خیبر پختونخوا اسمبلی میں جس طرح کی تقریریں ہوئیں اور احتجاج کے حوالے سے خود کو بری الذمہ ٹھہرانے کی کوشش میں جو الزامات لگائے گئے وہ کوئی پوشیدہ امر نہیں خود اراکین اسمبلی ڈی چوک کے کس کونے میں کھڑے تھے راستہ بھر اپنی تشہیر کرنے والوں نے اسلام آباد پہنچ کر ڈیجیٹل حاضری میں غفلت کیوں کی اس کا سب سے بہتر علم تحریک انصاف کے ان کارکنوں ہی کو ہو گا جو ڈی چوک تک گئے بنا بریں اس کا فیصلہ بھی انہی پرچھوڑتے ہیںدیر یا بدیر بھڑک بازوں اور حقیقی قیادت کا عقدہ کھل ہی جائے گا جہاں تک پنجاب کو مطعون کرنے کا سوال ہے ہم نے قبل ازیں انہی سطور میں بار بار اس امر کااعادہ کیا تھا کہ جب تک کسی تحریک کا مرکز ماضی میں کراچی یا لاہور نہ ہوا کامیابی نہ ملی تحریک انصاف پنجاب میں جس قدر نشستوں کی دعویدار ہے اور اس کی مرکزی اور اہم قیادت کا تعلق بھی وہیں سے ہے اس کے باوجود حالیہ تحریکوں میں کسی ایک تحریک اور احتجاج کے دوران پنجاب میں کوئی ہلچل نہ ہوئی تحریک انصاف کو ملک گیر جماعت اور اس کی تحریک و احتجاج کو ملک گیر ثابت کرنے کاتقاضا بھی یہ تھا کہ ہر صوبے سے کم یا زیادہ کچھ تعداد میں لوگ ضرور نکلتے خاص طور پر پنجاب کو اس کا مرکز بنانا تھااور تین صوبوں کے مرکز اتصال راجن پور سے اگر قافلہ اسلام آباد کی طرف چل پڑتا تو احتجاج موثر ثابت ہوتا مگر اس کا انتظام کئے بغیر ہر بار خیبر پختونخوا ہی کے کارکنوں کو تھکاوٹ آمیز زحمت دینا خود قیادت کی غلطی تھی اس میں پنجاب کو قصور وار گرداننے کی بجائے اپنی حکمت عمی پر نظر ثانی کی ضرورت تھی پنجاب نے جب اسٹیبلشمنٹ سے پنجہ آزمائی شروع کی تو کیا یہ ہم ہی نہیں تھے جنہوں نے تولہ ماشہ برابر کرنے کے لئے کندھا پیش کیاسیاسی تحریکیں جس منصوبہ بندی اور تدبیر سے چلانے کی متقاضی ہوتی ہیں تحریک انصاف میں اس کا فقدان ہی وہ کمزوری نہیں ہوتی جو عوام کی طاقت و حمایت کے باوجود نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتی بہتر ہو گا کہ اوروں کو الزام دینے کی بجائے منزل پر قافلہ لٹوانے کی اپنی غلطی پر نظر دوڑا کر اپنی اصلاح کی جائے اور بلاوجہ کا باب نہ کھولا جائے۔

مزید پڑھیں:  ہم بتائیں تو کیا تماشا ہو