اہل فلسطین کی مثالی استقامت

فلسطین کے عوام اور مجاہدین جس استقامت سے آتش و آہن سردی کی شدت اور بھوک و افلاس کا جس ایمانی جذبے کے ساتھ ثابت قدمی سے مقابلہ کر رہے ہیں وہ ناقابل یقین ہے جوابتدائی دنوں میں مسلمانوں کو درپیش حالات سے مختلف نہیں یہ جذبہ اور قوت ایمانی کامظاہرہ ہی ہے جو ابھی تک استقامت سے حالات کے سامنے دیوار کی طرح کھڑے ہیں دیکھا جائے تو سب سے پہلے تو اسرائیل کے خلاف عربوں کی مزاحمت میں وہ لوگ اپنی جھلک دیکھتے ہیں جنہوں نے غاصب یا نوآبادیاتی قوتوں کا مقابلہ کیا تھا۔ وہ کمزور لیکن غالب عوام کو اپنی زمین اور وقار کی بحالی کے لیے لڑتے دیکھتے ہیں جو طاقتور اور بیرحم دشمن سے نبردآزما ہیں۔ وہ ایک آخری نوآبادیاتی قوت کی کارروائیاں دیکھتے ہیں جو مقامی آبادی کو ان کی آبائی سرزمین سے محروم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔وہ ان لوگوں میں ایسے عوام کی جھلک دیکھتے ہیں جو کم وسائل کے ساتھ ایسی قوت کے خلاف مزاحمت کررہے ہیں جسے کرہ ارض کی سب سے طاقتور ملٹری اور سب سے طاقتور معیشت کی حمایت حاصل ہے۔ انہیں عوامل کی بنا پر دنیا بھر کے ایسے عوام کہ جن کی فلسطینیوں سے کوئی مذہبی، ثقافتی یا جغرافیائی وابستگی نہیں، مگر وہ بھی مقبوضہ غزہ اور مغربی کنارے میں محصور عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔درحقیقت وہ تمام لوگ جو انصاف پر یقین رکھتے ہیں، ان کے نزدیک فلسطینیوں کی جدوجہد حق بہ جانب ہے۔ نیلسن منڈیلا کے بقول، ہماری آزادی فلسطینیوں کی آزادی کے بغیر نامکمل ہے۔پاکستان سمیت مسلم ممالک عقیدے کی بنیاد پر فلسطینیوں کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اگرچہ کچھ مسلم حکومتیں فلسطینیوں کی جدوجہد کی کھلے عام حمایت کرنے سے ہچکچاتی ہیں لیکن ان مسلم ممالک کے باسی فلسطین کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں۔ اس کے علاوہ اس حوالے سے بھی سنگین خدشات پائے جاتے ہیں کہ اسرائیلی انتہاپسند (جو اسرائیلی حکومت میں بھی شامل ہیں) اسلام کی مقدس ترین مقامات میں سے ایک، مسجد اقصی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں جس کی وجہ سے فلسطینیوں کی مزاحمت ایک مذہبی جنگ میں تبدیل ہورہی ہے۔ امید کرتے ہیں کہ ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی اور ایک دن تمام عقائد یا مذاہب کو ماننے والے فلسطینی اپنے آبااجداد کی سرزمین پر لوٹ آئیں گے اور آزادی کے ساتھ اپنی زندگی گزاریں گے۔

مزید پڑھیں:  ایجوکیشن کوڈ میں ترامیم