صوبہ خیبر پختونخوا میں گورنر راج کے نفاذ کے حوالے سے حالیہ کچھ دنوں میں سیاسی حلقوں میں چلنے والی بحث اور سیاسی قائدین کے مابین اختلافات پر مبنی خبروں سے سیاسی فضا پر تکدر کے سائے نے عام آدمی کو فکر میں مبتلا کر رکھا ہے، اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر بھی بحث چل رہی ہے جبکہ حکومتی وزیر دفاع خواجہ آصف نے جو حکومتی حلقوں میں اپنی سنجیدگی کے حوالے سے پہچان رکھتے ہیں اور ان کے بیانئے کو اہمیت دی جاتی ہے، اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ خیبر پختونخوا میں گورنر راج لگانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، جسے اطمینان بخش قرار دیا جا سکتا ہے، ادھر دوسری جانب وفاقی کابینہ کے حالیہ اجلاس کے دوران بھی صوبے میں گورنر راج اور تحریک انصاف پر پابندی لگانے کے سوال پر اختلاف پایا گیا جبکہ پیپلز پارٹی جو وفاق میں بطور اتحادی جماعت موجود ہے ،اس نے بھی صوبے میں گورنر راج کی مخالفت کی ہے، تاہم گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ ” اگر وفاق گورنر راج لگاتا ہے تو میں کیوں روکوں؟” جو واضح طور پر پارٹی کے مؤقف سے جزوی اختلاف کی نشاندہی کرتا ہے حالانکہ ان کی جماعت کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے واضح کیا ہے کہ کسی سیاسی جماعت پر پابندی کے حامی نہیں ،گویا اس کے اندر سے گورنر راج کی مخالفت کا سامان بھی ڈھونڈا جا سکتا ہے، دوسری جانب جماعت اسلامی نے بھی گورنر راج کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پرامن احتجاج ہر جماعت کا حق ہے، اسی طرح جمعیت علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن کا مؤقف بھی بہت واضح ہے جبکہ قومی وطن پارٹی کے چیئرمین آفتاب احمد خان شیر پاؤ نے بھی سیاسی مسائل کا حل بات چیت کے ذریعے نکالنے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ قومی وطن پارٹی کسی غیر آئینی اور غیر جمہوری اقدام کی حمایت نہیں کریگی، غرض یہ کے ملک کی سیاسی قیادت کی اکثریت صوبے میں گورنر را ج کے نفاذ کی حامی نظر نہیں آتی اور اگر بہ نظرغائر دیکھا جائے تو صوبے میں گورنر راج کے نفاذ سے سیاسی ماحول مزید کشیدہ ہونے کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ،بہرحال یہ فیصلہ تو وفاقی حکومت نے کرنا ہے کہ صوبے میں گورنر راج کا نفاذ کیا جائیگا یا سیاسی حلقوں کی رائے کو مد نظر رکھتے ہوئے اس انتہائی اقدام سے گریز کیا جائیگا کیونکہ یہ ویسے بھی اتنا سادہ مسئلہ نہیں ہے اور اس اقدام کی راہ میں لا تعداد آئینی اور قانونی مسائل حائل ہیں ،جن سے احتراز کرتے ہوئے اگر افہام و تفہیم کی راہ اختیار کرتے ہوئے کسی قابل قبول حل پر گفت و شنید کے ذریعے پہنچا جائے تو بہتر ہوگا۔