قولوللناس حسنا!

درست بات کے اندر پوشیدہ مثبت فکر کو دنیا کی کوئی طاقت غلط قرار نہیں دے سکتی ،وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کے تازہ ارشادات کو جو انہوں نے گزشتہ روز کوہاٹ میں ضلع کرم کے معاملے پر قائم گرینڈ جرگے سے خطاب کرتے ہوئے کہے، مثبت اور خوش آئند قرار دینے میں کوئی امر مانع نہیں ہو سکتے، انہوں نے جرگے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جو بھی ہتھیار اٹھائے گا دہشتگرد کہلائے گا دہشتگردوں کا ٹھکانہ جہنم ہے ،انہوں نے اس موقع پر ضلع کرم میں فریقین کے تمام مورچے بلاتفریق ختم کرنے اور لوگوں کے پاس موجود اسلحہ اکٹھا کرنے کی ہدایت کی، وزیراعلیٰ نے کہا کہ صوبائی حکومت کی درخواست پر فوج علاقے میں امن کیلئے تعینات ہے، فوج ،پولیس اور انتظامیہ ملکر پائیدار امن کیلئے کوشاں ہیں، سب سے اہم بات جو وزیراعلیٰ نے کہی وہ یہ ہے کہ سیاسی اختلافات اپنی جگہ، وفاق امن کیلئے ایف سی پلاٹونز فراہم کرے، جہاں تک علی امین گنڈاپور کے ان الفاظ کا تعلق ہے کہ” سیاسی اختلافات اپنی جگہ ”۔۔۔ اور یہی وہ کلیدی جملہ ہے جس کی اہمیت اور افادیت نہ صرف مسلمہ ہے بلکہ اس جملے کے اندر سے روشنی کی ایک کرن پھوٹتی دکھائی دیتی ہے ،سیاست میں اختلاف رائے کوئی نئی بات نہیں ہے، تاہم اختلاف رائے کو اگر مثبت انداز میں آگے بڑھایا جائے تو اس کے نتائج بھی مثبت نکلتے ہیں، بدقسمتی مگر ہمارے ہاں ایسا نہ ماضی میں کبھی ہوا ،نہ ہی موجودہ حالات اس کی گواہی دینے کو تیار ہیں بلکہ جملہ سیاسی جماعتیں اختلافات کے حوالے سے ” حدود و قیود” کی ساری دیواریں توڑ کر ذاتی دشمنی اور مخاصمت کے دائرے میں کھڑی نظر آرہی ہیں، اگرچہ اس کی ذمہ داری بھی( انتہائی معذرت کیساتھ ) تحریک انصاف کی قیادت پر زیادہ اور دوسری جماعتوں پر کم ڈالی جا سکتی ہے، جب تحریک انصاف کے بانی نے گزشتہ کئی برس سے سیاسی اختلافات کے خاتمے کی ہر کوشش ناکام بناتے ہوئے سیاسی ڈائیلاگ کی راہ کھوئی کی، یہاں تک کہ مخالف سیاسی قائدین کیساتھ( تا حال) کسی قسم کی گفتگو سے انکار اور صرف” مقتدرہ ” سے ہی مذاکرات کی رٹ لگانے کی راہ اختیار کر رکھی ہے، جس کا صرف اور واضح مطلب یہ ہے کہ وہ ماضی کی طرح” طاقتور قوتوں ” کی پشت پناہی دوبارہ چاہتے ہیں ،اور بعض سیاسی قائدین ان کے اس مؤقف کو” این آر او” قرار دیتے ہوئے غلط قرار دیتے ہیں۔ قطع نظر ان ساری باتوں کے اگر وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے تازہ مؤقف کو دیکھا جائے تو اصولی طور پر اسے ” پارٹی” کے انداز فکر کے برعکس قرار دیا جا سکتا ہے،یعنی سیاسی اختلافات سے قطع نظر امن کے قیام کیلئے وفاق سے صوبے کے شورش زدہ اضلاع میں ایف سی پلاٹونز کی تعیناتی کا مطالبہ اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے ،کیونکہ صوبے کے مختلف علاقوں سے جو خبریں آ رہی ہیں وہ باعث تشویش ہی قرار دی جا سکتی ہیں، جنوبی وزیرستان میں آج بروز اتوار (جب یہ سطورلکھی جارہی ہیں)کرفیو نافذ ہے ،جس سے حالات کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، اسی طرح لنڈی کوتل میں آپریشن کے نتیجے میں 3 شدت پسند مارے جانے، بنوں میں عسکریت پسندوں کیخلاف آپریشن تیسرے روز بھی جاری رہنے اورغوڑہ بکاخیل میں گن شپ ہیلی کاپٹروں سے شیلنگ کی اطلاعت کیساتھ بنوں کینٹ سے ٹینک بھی روانہ کرنے کی خبریں ا رہی ہیں، جبکہ کرم کشیدگی کے حوالے سے بگن گاؤں میں ویرانی کی حکمرانی ہے ،جہاں بازار اور دکانیں جل کر خاکستر ہو چکی ہیں، 300 سے زیادہ خاندان علاقے سے نقل مکانی کر چکے ہیں، غرض ہر طرف تباہی اور بربادی کی داستانیں رقم ہوتی دیکھی جا سکتی ہیں، اس لئے گزشتہ روز گرینڈ جرگہ سے خطاب کے دوران وزیراعلیٰ نے ہتھیار اٹھانے والوں کو جس طرح دہشتگرد قرار دیا ہے اور علاقے میں متحارب گروپوں کے درمیان امن کے قیام کیلئے تمام مورچے بلا تفریق ختم کرنے اور فریقین سے اصلح اکٹھا کرنے کا حکم دیا ہے تو اسے مسئلے کے حل کیلئے ایک قدم ضرور قرار دیا جا سکتا ہے، تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ نوبت اس مقام تک کیوں جا پہنچی؟ اور اس کا سیدھا سیدھا جواب یہ ہے کہ اگر وزیراعلیٰ صوبے کے جملہ وسائل لاحاصل دھرنوں اور اسلام آباد پر دھاوے بولنے سے احتراز کرتے ہوئے اپنے ہی صوبے میں لگی آگ بجھانے، دہشتگردانہ حملوں کیخلاف مؤثر کارروائی کرنے پر توجہ دیتے تو آج یہ صورتحال ہرگز نہ ہوتی، نہ تو صوبے کے امن کو چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا، نہ اسلام آباد کیخلاف حملوں میں ملوث اپنی پارٹی کے سینکڑوں افراد پر مقدمات بنوانے کی نوبت آتی ،جن کا اب کوئی پرسان حال دکھائی نہیں دیتا، نہ ہی پارٹی کیخلاف” معدومیت ” کی ممکنہ کارروائی کی سوچ ابھرتی اور نہ ہی ملکی سیاسی صورتحال میں اس قدر کشیدگی پیدا ہوتی جسے اب” جھوٹے بیانیوں” سے دور کرنے کی کوششوں میں سیاسی فضا مزید مکدر ہوتی، بہرحال جیسا کہ اوپر کی سطور میں عرض کیا جا چکا ہے کہ وزیراعلیٰ نے اپنے روئیے اور مؤقف میں تبدیلی کرتے ہوئے وفاق سے سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھنے اور صوبے میں امن کے قیام کیلئے رینجرز کی تعیناتی کا جو مطالبہ کیا ہے اسے مسئلے کا بہتر حل سمجھتے ہوئے ہم بھی وزیراعلیٰ کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے گزارش کرتے ہیں کہ وفاق صوبہ خیبر پختونخوا میں امن کے قیام کو ممکن بنانے میں اپنا کردار ادا کرے۔

مزید پڑھیں:  یہ عذاب نہیں بلکہ ڈھیل ہے