ڈیجیٹل پنجہ آزمائی

حکومت کی جانب سے تحریک انصاف کے اسلام آباد میں احتجاج کے بعد سوشل میڈیا پر پروپیگنڈے میں ملوث افراد اور تنظیموں کی شناخت کے لیے مشترکہ ٹاسک فورس قائم کی گئی ہے۔نوٹیفکیشن کے مطابق جوائنٹ ٹاسک فورس میں دیگر اداروں کے افسران بھی شامل ہوں گے۔نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ کچھ سیاسی شرپسند سکیورٹی فورسز کے حوالے سے گمراہ کن پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔ پروپیگنڈے کا مقصد اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ملک میں انتشار پھیلانا ہے۔پاکستان تحریک انصاف سے منسلک سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس گزشتہ تین دن سے حکومت پر الزام عائد کر رہے ہیں کہ ڈی چوک میں گولیاں چلائی گئیں۔دریں اثناء وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج کے دوران پاک فوج کا پرتشدد مظاہرین سے کوئی براہ راست ٹکرائو نہیں ہوا۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پُرتشدد مظاہرین نے پشاور تا ریڈزون تک مارچ کے دوران ڈیوٹی پر مامور اہلکاروں کو نشانہ بنایا، مظاہرین نے اسلحہ بشمول اسٹیل سلنگ شاٹس، اسٹن گرنیڈ، آنسو گیس شیل اور کیل جڑی لاٹھیاں استعمال کیں، پُرتشدد احتجاج میں خیبر پختونخوا حکومت کے وسائل کا بھرپور استعمال کیا گیا۔بنظر غائر دیکھا جائے تو صرف تحریک انصاف ہی نہیں بلکہ حکومتی عناصر بھی سوشل میڈیائی محاذ پر کسی سے پیچھے نہیں بعض اوقات تو ایسا لگتا ہے کہ ریاست کے معاملات اب سوشل میڈیا کے گرد گھومنے کا نام ہی حکومت او ر حکمرانی پڑ گیا ہے سیاسی جماعتوں نے تو خیر سے کی بورڈ کے ایسے سپاہی بھرتی کئے ہیں جو لفظوں کے استعمال سے ہی اناڑی نہیں بلکہ ان کو سیاست و صحافت کی ابجد بھی نہیں آتی جس کے نتیجے میں یہ جتھہ خود بخود گالی گلوچ اور پراپیگنڈا بریگیڈ میں تبدیل ہو گیا ہے جس کے اثرات من حیث المجموع معاشرے پر اور خاص طور پر نوخیز اذہان پر پڑرہا ہے اس سے ایک نئی قسم کی نفرت اور انتہا پسندی کا رجحان جنم لیا ہے یہ ایک مجموعی صورتحال ہے لیکن حکومت کو اس میں بھی حزب اختلاف کی ایک فعال جماعت قصور وار نظر آتی ہے سیاسی عینک ہٹا کر دیکھا جائے تب بھی بہرحال اس کی وجہ سیاسی ہو یا نہ ہو اس کی شاید فطری وجہ یہ نظرآتی ہے کہ جماعت میں اکثریت نوجوانوں کی ہے جس کی بنا ء پر اس جماعت کا پراپیگنڈہ بھی غالب نظر آتا ہے علاوہ ازیں پی ٹی آئی نے اپنے دور حکومت سے قبل اور حکومت میں ہوتے ہوئے ایک بڑی بھاری تعداد سوشل میڈیا پر فعال افراد بھرتی کئے جو نہ صرف پوری طرح فعال ہیں بلکہ ان کی تعداد میں اضافہ بھی نظرآتا ہے جب ہر طرف سے سیاسی جدوجہد کا میدان ان پر تنگ کرلیا جاتا ہے تو بالاخر ملک سے باہر بالخصوص اور ملک میں بالعموم سوشل میڈیائی بریگیڈ بلاسوچے سمجھے جس طرح پروپیگنڈے کا بازار گرم کرتی ہے وہ کسی کے لئے یہاں تک کہ خود ان کے اپنے حق میں بھی نہیں ہوتی تحریک انصاف پراپیگنڈے کے زور پر طاقتور کو دبائو میں لانے کی جس پالیسی پر عمل پیرا ہے اس کے نہایت منفی اثرات پراگر قیادت کی نظر جائے اور اصلاحی و مناسب انداز میں اس شعبے کو منظم کرنے پر توجہ دے تو یہ خود ان کے اپنے حق میں بہتر ہوگا بہرحال اب پانی سر سے اونچا ہو جانے کے بعد سرکاری طور پر دیگر ایسے تمام حربوں جس سے صرف تحریک انصاف کے کارکن ہی نہیں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے تمام صارفین کو نہایت مشکلات کا سامنا رہا اب بالاخر مخصوص عناصر کو لگام دینے کے اقدامات کا فیصلہ کس قدر موثر وکارآمد ہو گا اور اس کے اثرات کیا ہوں گے ایسے میں سب سے بڑا سوال ہی یہ ہے کہ بیرون ملک بیٹھے سرگرم عناصر کا کیاہو سکے گا اس سے قطع نظر اس مسئلے کا جوحل حکومت جن اقدامات میں تلاش کرنے جارہی ہے اس سے زیادہ بہتر حل اور صورت سیاسی مکالمہ شروع کرنے میں ہے عمل جب تک ہو گا رد عمل کا بھی خطرہ اور امکان رہے گا اس لئے پہلے عمل کو دھیما کرنے پر توجہ دی جائے تاکہ ردعمل سے بچا جا سکے ۔وزارت داخلہ کی وضاحت سے انکار کی گنجائش نہیں اور خیبر پختونخوا سے جانے والوں کی جانب سے بھی حدود سے تجاوز کا دفاع ممکن نہیں لیکن اصل مسئلہ پھر پیش آمدہ حالات کا ہی ہے جب تک سڑکوں پر مبازرت رہے گی تب تک مزید سنگین واقعات کے خدشات کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا جس کی آڑ لے کر پراپیگنڈے کے دروازے بھی کھولے جائیں گے اس کی مثال دو طرفہ ٹریفک کی ہے بہرحال جلوس میں اگر کوئی نہایت مطلوب شخص اور دعوے کے مطابق محولہ قسم کے افراد تھے تو ان کی گرفتاری کے لئے اقدامات اور دیگر قانونی کارروائی ہوتی تو یہ اپنی جگہ مگر یہاں جن کا تذکرہ ہے ان کے حوالے سے تو علم نہیں مگر بہرحال لائٹس بند کرکے فائرنگ ہونے کی تردید نہیں ہو سکتی حکومتی طور پر جو حکمت عملی اختیار کی گئی اس کا جواب اور جواز دونوں مدلل انداز میں دے کر ہی تسلی وتشفی کی جا سکتی ہے اختیار کردہ صورت نہ تو کارگر ہے اور نہ ہی اس سے ایک بھاری باب بند ہو سکے گا۔

مزید پڑھیں:  مذاکرات کی نئی کروٹ