امریکہ ، یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں کوئی سیاسی پارٹی اگر بن جاتی ہے اور عوام میں اپنا ایک نام کما لیتی ہے توپھر چاہے جو کوئی بھی ان کا صدارات یا وزارت عظمیٰ کا امیدوار ہو اس پارٹی کے سیاسی کارکن اپنی پارٹی کے امیدوار کوہی ووٹ دیتے ہیں۔ کسی ایک لیڈر کے پیچھے نہیں دوڑتے بلکہ اپنی پارٹی اور اس کی پالیسیوں پر عمل پیراہوتاہے ۔ اکثر ملکوں میں دو پارٹی سسٹم ہے اور اس ملک کی ساری آبادی انہی دو پارٹیوںکو باری باری موقع دیتی ہے۔ یہ بھی بارہاہوا کہ ایک پارٹی ایک سے زائد مرتبہ اقتدار میں رہی ۔ ایسے بھی ہوتاہے کہ ایک ہی شخص ایک سے زیادہ دفعہ صدر یا وزیر اعظم بنتاہے۔ یہی طریقہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں بھی ہے وہاں بھی دوپارٹیاں کئی برسوں سے باری باری برسراقتدار رہی ہاں یہ ہوا کہ اس سیاسی پارٹی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار بدلتے رہے ہیں۔ تاہم اس کے برعکس ہمارے پیارے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں لیڈر جیسے ہی مقبول ہوجائے تو جس پارٹی نے اسے بنایا ہوتاہے وہ پیچھے رہ جاتی ہے وہ سیاسی لیڈر خود ایک سیاسی جماعت بن جاتاہے اور وہ اگر کسی سیاسی جماعت سے نکل کر اپنی جماعت بنادے تو لوگ اس لیڈر کے پیچھے نئی بننے والی سیاسی پارٹی کے ساتھ ہوجاتی ہے۔ اس کی ایک بہت بڑی مثال مسلم لیگ ن، اس پارٹی کے سربراہ کل ایک مسلم لیگ کے صوبائی صدر تھے تاہم اپنی مقبولیت کا بھرپور فائدہ اٹھاکر اپنے نام کی مسلم لیگ بنالی مسلم لیگ( ن) بنالی۔ پھر اسی طرح مسلم لیگیوں کے ہر ایک لیڈر نے اپنے نام کا
سابقہ لگاکر نئی سیاسی پارٹی بنا لی۔ ان میں مسلم لیگ ق، مسلم لیگ ضیاء وغیرہ بہت اہم ہیں ۔ ہر ایک سیاسی گروپ نے یہاں تک مقبولیت اختیار کی مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق نے وفاق میں حکومت تک کی۔ جمعیت علماء اسلام کی بھی اسی طرح تقسیم ہوئی اورمولانا سمیع الحق نے جمعیت علماء اسلام س کے نام سے جماعت بنالی اور مولانا فضل الرحمن نے جمعیت علماء اسلام ف بناکر حکومت بلکہ حکومتوں کا حصہ رہے گورنر شب تک کے مزے اٹھائے۔ اسی طرح شخصیت پرستی کی مثال کے طور پر آفتا ب احمد خان شیرپائو پاکستان پیپلز پارٹی سے نکل کر اپنی سیاسی پارٹی بناتے ہیں تو لوگ نئی پارٹی کو صوبہ میں اقتدار تک میں حصہ دیتے ہیں۔ اس کی کئی اور مثالیں بھی دی جاسکتی ہیں۔ یہاں یہ بات بتادینا بہت ضروری ہے کہ اس طرح کی سیاسی جماعتوں کے بانی رہنماء اکثر اپنے نائب نہ بناتے ہیں اور نہ ہی بننے دیتے ہیں۔ کیونکہ ایسا بھی اکثر ہوجایا کرتا کہ وہ نائب ہی پارٹی کو ہائی جیک کرلیتا تو اس ڈر سے نائب کو کبھی بھی آگے نہیں آنے دیا جاتا۔ اس طرح بننے والی سیاسی جماعت مقبول لیڈر کے چلے جانے ، فوت ہوجانے یااس جماعت کو چھوڑجانے کے بعد اس سیاسی جماعت کا کوئی دوسرا لیڈر نہیں ہوتا وہ سیاسی جماعت اکثر ختم ہی ہوجاتی ہے یا کسی دوسری سیاسی جماعت میں ضم ہوکر اپنا وجود کھودیتی ہے۔ اس کے برعکس کبھی کبھار اس پارٹی کے بانی لیڈر کے خاندان کی عورت کو یہ ذمہ داری لینی پڑتی ہے ۔حالانکہ اس پارٹی میں نامور سیاسی لیڈر موجود تھے لیکن پارٹی بانی کے نام سے آگے چلنے کی وجہ سے اس کے خاندان کے فرد ہی کو چلانا پڑتاہے۔ جیسے پیپلز پارٹی میں پہلے نصرت بھٹو اور پھر بے نظیر بھٹو نے پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالی۔ اسی طرح پڑوسی ملک بھارت میں بھی گاندھی خاندان میں بھی اندراگاندھی اور اس کے بیٹے کے مرنے کے بعد اس کی بیوہ سونیاگاندھی نے کانگریس پارٹی کو سنبھالا دیاہواہے۔ ابھی پاکستان میں مسلم لیگ ن کے بڑے بڑے سیاست دان نام ہونے کے باوجودمیاں نواز شریف نے اپنا جانشین اپنی صاحبزادی مریم نوازکو قرار دیا اور محترمہ جلد ہی مسلم لیگ ن کی قیادت سنبھالیں گے۔ پاکستان کی دیگر سیاسی پارٹیوں کی طرح پاکستان تحریک انصاف بھی اپنے بانی عمران خان کے بغیر کچھ بھی نہیں ۔ پی ٹی آئی نے بھی روائیتی پاکستانی سیاسی پارٹی ہونے کا ثبوت دیاہے اور پارٹی میں اتنے معتبر سیاسی لوگ ہونے کے
باوجود ان کوپارٹی کی قیادت نہیں دی جارہی۔الحمدللہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء عمران خان ابھی زندہ ہیں تاہم ان کے جیل میں ہونے کی وجہ سے پارٹی قیاد ت کے لئے ان کی بیگم کو وہی مقام دیا جارہا ہے جو کہ ہماری روائیتی پارٹی جیسا روئیہ اپنا رہی ہے۔ اس موقع کا پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے عمران خان کی بہنیں تیسری بیوی محترمہ بشریٰ بی بی کے خلاف سیاسی بیان بازی کررہی ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ان خواتین میں ابھی سیاسی پختگی نہیں ہے اور ان کے سیاسی بیانات کی وجہ سے فائدہ کی بجائے الٹا عمران خان کی سیاسی جدوجہد کو نقصان ہورہاہے۔ان خواتین کو نہ تو پارٹی کے معاملات کا کچھ پتاہے اور نہ ہی وہ اتنی سیاسی بصیرت رکھتی ہیں کہ پارٹی کو منظم و فعال رکھ سکیں۔ بشریٰ بی بی نے حالیہ فائنل کال کے بعد کور کمیٹی کے اجلاس میں پارٹی کے بڑے بڑے عہدیداروں کو بے شرم اور بے غیرت تک کہہ دیا۔ جس سے تمام کے تمام بڑے عہدیدار ناراض ہوچکے ہیں اور پارٹی چھوڑنے کا سوچ رہے ہیں۔ عمران خان کی تیسری بیگم صاحبہ نے اس کے کچھ دن پہلے بھی اس طرح کی حرکت کی اور ان کے بیان سے بات تو واضح ہوگئی عمران خان کوجنرل باجوالے کر آیا تو اسی لئے توبی بی نے اپنے بیان میں کہا کہ سعودی ولی عہد نے باجوا صاحب کو کہا کہ تم یہ کس بندے کو لے کر آئے ہو۔ عمران خان کی تیسری بیوی نے یہ بات بتاکر نیا پنڈورا بکس کھول دیا کیونکہ ابھی تک پی ٹی آئی کا موقف تھا کہ ان کی حکومت امریکہ نے ختم کی جب کہ پیرنی بی بی نے پارٹی کے سارے بیانیہ کو ہی بدل دیا۔
Load/Hide Comments