غبار دل

پاکستان کو چھوڑنے کی سکت ہر کسی کی نہیں ہو سکتی ہو بھی تو بہت سے لوگ اسے چھوڑ کر کہیں بھی نہیں جانا چاہتے یہی لوگ مخلص ترین اور اس ملک کے لئے مشوش بھی ہیں جن لوگوں کے پاس اسے چھوڑ کر جانے یا پھر باہر ٹھکانہ رکھنے کی سکت ہے ان کے لئے چونکہ جانے کے دروازے ہر وقت کھلے ہوتے ہیں اس لئے ان کو پرواہ ہی نہیں اس طرح کے لوگ سیاستدان ہوں یا پھر ریٹائرمنٹ کی تاریخ کے اگلے روز کی ان کی ٹکٹ بک ہوتی ہے سیاستدانوں کو سیاست بلکہ اقتدار کی واپسی کی لت نہ ستائے تو واپسی کی راہ ہی نہ لیں وہ اقتدار میں ہوں تو پاکستانی اور اقتدار چلی جائے تو غیر ملکی بن جاتے ہیں جبکہ دوسرا گروہ جب تک سرکار پاکستان کی مسند پر ہوں تو پاکستانی جس دن سبکدوش ہو جائیں ساری پاکستانیت اور حب الوطنی کو یہیں چھوڑ کر بیرون ملک اپنے ”اچھے دنوں” میں انتظام کردہ آراستہ و پیراستہ محلات میں منتقل ہونے کی ان کو اتنی تعجیل ہوتی ہے کہ ایک دن بھی 25 کروڑ پاکستانیوں کے اس ملک میں رہنا ان کو گوارا نہیں نواز شریف کے بچے اور پرتعیش فلیٹ ہی لندن میں نہیں عمران خان کے بچے بھی وہیں پر پل پڑھ گئے بلاول کی بھی لندن اور دبئی میں پرورش ہوئی آصف زرداری کا بھی ٹھکانہ خلیجی ریاست میں ہے باقی کا اقامہ و”پانامہ” جیب میں تیار پڑا ہوتا ہے بیشتر کا سب کچھ ادھر ہی ہے کسی کا کچھ نہ کچھ اور اگر کچھ نہیں بھی ہے تو بھی اتنا کچھ ہے کہ جب چاہئے ہو گا کچھ لے سکتے ہیں ان دو کشتیوں کے سواروں سے توقعات ہی میری آپ کی اور اس ملک کے عوام کی غلطی ہے ہمارا تو کہیں بھی کچھ نہیں اور تو اور اس ملک میں بھی ہمارا یا تو ہے ہی نہیں یا بہت تھوڑا ہے صرف پاس کچھ نہ ہونا ہی نہیں ہماری روح اورسوچوں میں بھی پاکستان اور اس ملک سے محبت گوندھی اور رچی بسی ہوئی ہے ہم اپنے بچوں کے بارے میں بھی خواب ادھر ہی کے حوالے سے دیکھتے ہیں ایسے میں پریشان بھی ہم ہی نے ہونا ہے ، عمران خان ، نواز شریف ، آصف علی زرداری اور بلاول یا وہ لوگ جن کے بچے اپنی محنت پر نہیں بلکہ ”پاکستانی وسائل”سے بیرون ملک پڑھنے گئے ہیں ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے بھی محلات اور جزیرے تیار ہیں ان سے توقعات ان کی نہیں ہماری غلطی اور سادہ لوحی ہے پاکستان کے عوام پر افسوس ہے کہ وہ ان لوگوں کے جھانسے میں ہی رہتے ہیں کبھی ان کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ کس سراب کے پیچھے خود کو بلاوجہ کا سرگردان رکھا ہوا ہے ان لوگوں کے لئے ہم ٹشو پیپر ہیں جب ضرورت پڑی نازو ادا سے اٹھا کر استعمال کر لیا اور پھینک دیا گیا ایسا ہوتے ہوئے ہم اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھتے کیا ہمارا مشاہدہ اور تجربہ ایسا ہی نہیں مگر ہم ہیں کہ ہر مرتبہ انہی کے ہاتھوں استعمال ہوتے ہیں اور ذرا بدلنے کو تیار نہیں ان کو دیکھیں کس طرح گرگٹ کی طرح رنگ بدل بدل کر آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں پھر آتے ہیں پھر چلے جاتے ہیں مگر مجال ہے کہ ہم ان کی چالوں کو سمجھ سکیں اور بار بار جاننے دیکھنے اور تجربہ ہونے کے باوجود انہی کے سحر میں گرفتار ہیں پاکستان اس نہج پر نہ پہچا ہوتا اگر ہم عوام نے ہوش کے ناخن لیا ہوتا ہم استعمال خود ہوتے ہیں اور الزام ان کو دیتے ہیں کیوں آخر ہم باربار انہی کے ہاتھوں استعمال ہونے کا شوق فرماتے ہیں؟ آخر کیوں؟یہ جو گزشتہ ایک برس سے ہم ہر روز و شب جس سیاسی ، معاشی اور آئینی بحران سے گزر رہے ہیں اور روز بروز اس میں شدت آتی جارہی ہیں ملک عدم استحکام اور سیاسی بے یقینی کا شکار ہے ان حالات کا ذمہ دار کون ہے ظاہر ہے وہی جن کا حوالہ دیاگیا مقتدرہ کی سیاست میں مداخلت نے یہ دن دکھا دیئے کہ اس کے اثرات سے اب معاشرہ بھی تقطیب اورتقسیم کا شکار ہو کر رہ گیا ہے سیاسی جماعتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج اور سیاسی اختلافات کو ذاتی سطح بلکہ پست ترین سطح پر اس میں ملوث ہونا بھی عدم استحکام کی ایک بڑی وجہ ہے اب اس صورتحال سے نکلنا ہے توقومی اتفاق رائے ہی اس سے نکلنے کا راستہ ہو سکتا ہے مگر اس کا ادراک ہی نہیں بلکہ یہاں پر ایک ایکٹر کو لایا جاتا ہے اس کے لئے راستہ ہموار کرتے ہوئے سارے اصول نئے وضع ہوتے ہیں پھر اس کا قدر بڑا ہو جاتا ہے تو تابوت میں کیل ٹھونکنے کے لئے وہ وہ ڈرامے ہوتے ہیں کہ جگ ہنسائی ہی نہیں ہوتی چہرہ بھی سیاہ روہوتا ہے جب سیاستدان آپس میں مل بیٹھ کر مسائل حل کرنے کے قابل نہ ہوں نہ اس پر آمادہ ہوں اور نہ ہی ملک و قوم کے نقصان کی ان کوپرواہ ہو تو پھر اس وقت اس طرح کے حالات پیدا ہوا کرتے ہیں جن سے ہم ابھی گزر رہے ہیں جھوٹ یا سچ کچھ ایسا ہونے یا کئے جانے کی افواہیں ہیں کہ خدانخواستہ اس معاشرے کی بنیادیں ہی ہل جائیں اور بدقسمتی سے اس کا ایندھن بھی ہم عوام نے ہی بننا ہے ان کے بچے لندن و دبئی میں ہوں گے اپنے محلات میں آرام کر رہے ہوں گے اور ہم سادہ لوحوں کے بچے نکل کر اپنی جانیں گنوائیں گے جن کا کوئی پوچھنے والا نہ ہو گاماہ و سال بدلتے جارہے ہیں لیکن ہم خود کو بدلنے کے لئے تیار نہیں نہ قوم اور نہ ہی سیاستدان، مقتدرہ ، عدلیہ اور معاشرے کے اہم کردار سبھی بھیڑ چال کی کیفیت سے دو چار ہیں سال کا آغاز جس طرح کے حالات سے ہوا تھا اس کا سلسلہ سال کے آخری ماہ تک جاری ہے سیاسی جماعتوں میں اختلافات کوئی بری بات نہیں مگر سیاسی قیادت کا اس کا کوئی حل نکالنے میں ناکامی تشویش کی بات ہے مشکل تو یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ بار بار کی کشیدگی ، دھرنوں اور احتجاج کی ناکامی کے بعد یہ سلسلہ پھر سے دہرانے ہی کا فیصلہ سامنے آتا ہے جبکہ اس کوروکنے والوں کے حربے بھی وہی کنٹینرلگانا اور پہلے سے زیادہ تشدد کی تیاری ہوتی ہے موزوں ہو گا کہ پاکستان تحریک انصاف جہاں ایک طرف اپنے موقف میں لچک پیدا کرے وہاں حکومت بھی اپنے محبین کو پیغام دے کہ وہ اب مزید فرمائشی پروگرام کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی او ملک کو دائو پر نہیں لگایا جا سکتا ۔ بات چیت سے کونسے مسائل نے حل ہونا ہے کم از کم برف پگھلنے کا آغاز ہی ہو جائے تو غنیمت ہو گی سیاسی اختلافات کو قومی اختلافات کی سطح تک تو کم از کم نہ لے جایا جائے سیاسی ہم آہنگی اور جمہوری اقدار کا احترام کرتے ہوئے سیاست و اقتدار کی طرف اب بھی اگر لوٹ آنے کا فیصلہ نہ کیا جائے تو پھر تاریخ ہمارے بارے میں جو فیصلہ کرے گی خدانخواستہ وہ بڑا بھیانک ہو گا۔

مزید پڑھیں:  کرم، رسدی قافلے پر پھر حملہ