صوبے میںایک جانب سیاسی حالات اور حکمران جماعت کے اراکین کی بڑھتی احتجاجی مصروفیات اور دوسری جانب وزیر اعلیٰ کی سیاسی صورتحال کے ساتھ ساتھ کرم میں قیام امن کی مساعی کے حوالے سے مصروفیات ہر دو وجوہات کی بناء پر اسمبلی سے غیر حاضری ہی اسمبلی اجلاسوں کی بے وقعتی کاباعث نہیں بلکہ محولہ امور کے باعث اسمبلی کا اجلاس بے معنی ساہو کر رہ گیا ہے ہمارے نمائندے کے مطابق خیبر پختونخوا اسمبلی میںکورم مکمل کئے بغیر ہی حکومت نے اپنا بزنس مکمل کرنا شروع کردیا ہے جبکہ اپوزیشن کی جانب سے بھی کورم کی نشاندہی نہیں کی جاتی واضح رہے کہ خیبر پختونخوا اسمبلی رولز کے تحت ایوان چلانے کے لئے کم سے کم تعداد 38اراکین کی موجودگی لازمی ہے، تاہم موجودہ صوبائی اسمبلی کے ابتک ہونے والی کاروائیوں کے دوران اراکین کی کم سے کم تعداد38 ممبران اسمبلی کی لازمی موجودگی کی شرط کو بھی نظر انداز کیا گیا جو کہ رولز کی سنگین خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے ۔ صوبے کے قانون ساز ادارے پر اس قدر برا وقت شاید ہی کبھی آیا ہو حکمران جماعت کے اراکین کی عدم دلچسپی اور حکومت کا کورم ہی پورا کرنے میں ناکامی خودایک بڑا سوالیہ نشان ہے دوسری جانب حزب اختلاف کے کمزور اور غیر موثر اراکین اگر دیگر معاملات میں بے بس ہیں تو کم از کم کورم کی نشاندہی کرکے حکومت کو متوجہ کرنے کی آسان اور موثر ذمہ داری تو نبھا سکتے ہیں لیکن شاید صوبے کی حزب اختلاف ضرورت سے زیادہ حکومت سے دوستانہ تعلقات استوار کر چکی ہے مفاہمانہ انداز میں اسمبلی کا اجلاس چلانے میں حزب اختلاف کے تعاون کو مثبت کہلائے جانے کی گنجائش ہے مگر اس قدربھی نہیں کہ کورم کی نشاندہی تک نہ کی جائے اور حکومت کو کھیل کھیلنے کاموقع دیا جائے ہوحکمران جماعت کو اگربھاری اکثریت کے باوجود کورم کا بھی بندوبست کرنے میں ناکامی ہوتی ہے تو یہ اراکین اسمبلی کی عوام اور اپنے حلقے کے عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کاعمل ہے جو مایوس کن رویہ اور عوامی مینڈیٹ کی توہین ہے حکمران جماعت اور حزب اختلاف دونوں کو جمہوری اور ذمہ دارانہ کردار اختیار کرنا چاہئے اور حق نمائندگی کو یوں رسوا کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔