وزیراعظم کے سیاسی مشیر رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ کچھ پتا نہیں کس نے کہاں سے فائرنگ کی، اسلام آباد میں ڈی چوک پر جو کچھ ہوا اس پر پارلیمانی کمیشن بننا چاہئے، قبل از وقت انتخابات سمیت تمام مسائل پر بات کرنے کے لئے تیار ہیں۔دریںاثناء تحریک انصاف کے چیئرمین نے بانی پی ٹی آئی سے جیل میں ملاقات کے بعدفائرنگ سے جاں بحق افراد کی تعداد بارہ بتانے کے ساتھ ایک غیر متوقع بات یہ کی ہے کہ اس میںاسٹیبلشمنٹ کاکوئی قصور نہیں جواس بیانیہ سے مختلف ہے جو تحریک انصاف ڈی چوک کے حالیہ واقعات کے حوالے سے اختیار کئے رکھی ایک اور عندیہ یہ بھی سامنے آیا ہے کہ حکومت اور تحریک انصاف کی قیادت کے درمیان احتجاج کو سنگجانی پرمحدود کرنے اور بدلے میں کچھ مطلوبہ رعایتوں کامعاملہ بھی تقریباً طے تھا مگر پھر حالات عقابوں کے ہاتھوں تبدیل ہوگئے جواس ضمن میں مزید مخمصے کا باعث امور ہیں بہرحال یہ معلوم کرنا زیادہ اہم ہے کہ آیا تصادم کے دوران حقیقی اموات ہوئی ہیں اور ان کی حقیقی تعداد کیا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی مبینہ ہلاکتوں کی بھی تحقیقات ہونی چاہئیں۔لہٰذا اس معاملے کی غیر جانبدارانہ انکوائری کے لیے دونوں فریقوں کے لیے قابل قبول جوڈیشل کمیشن یاپارلیمانی کمیشن آئندہ کے لئے حکومت اور اپوزیشن کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ مستقبل کے احتجاج کے حوالے سے مصروفیات کے کچھ اصولوں پر متفق ہوںتاکہ اس طرح کے واقعات اور سرکاری وسائل کے ضیاع کو بھی روکا جا سکے احتجاج کا حق جمہوری عمل کا حصہ ہے، لیکن کچھ ایس او پیز کو تمام فریقوں کے درمیان طے کرنے اور ان پر اتفاق کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ مظاہرے خونریزی پر ختم نہ ہوں۔ساری صورتحال کی تحقیقات کے لئے عدالتی کمیشن کا قیام موزوں مطالبہ تھا تاہم وزیر اعظم کے مشیر کی جانب سے ڈی چوک کے واقعات کے حوالے سے پارلیمانی کمیشن بنانے کامطالبہ بھی بے جا نہیں اس پرحکومت اگر سنجیدگی سے آمادہ ہے تو پھر اس پر اسمبلی کی آمدہ اجلاس میں بات ہونی چاہئے اور طریقہ کار طے کرکے جملہ سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کا حامل کمیشن بننا چاہئے تاکہ پراسرار معاملات اور دبیزپردے پڑے معاملات اور غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کی راہ نکل آئے اور اس سے سیاسی مکالمہ کی راہ ہموار ہونے کے لئے اعتماد سازی بھی ہو سکے۔