اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے

ماضی کے جھرکوں سے ابھرنے والی صدائیں یادوں کے پیرہن میں لپٹ کراپنے وجود کا احساس دلاتی ہیں تو بقول شاعر یوں محسوس ہوتا ہے کہ
دریچہ بے صدا کوئی نہیں ہے
اگرچہ جھانکتا کوئی نہیں ہے
ماضی تو کب کا تاریخ کے دھند لکوں میں کہیں کھو چکا ہے ، مگر کبھی کبھی ایسی خبریں آجاتی ہیں جن کو گزرے دنوں کی چھلنی سے گزارنے کی نوبت آجائے تو سابقہ روایات کو دوہرانے کے دعوے محفل نظر ہی دکھائی دیتے ہیں ، سوشل میڈیا پر چلنے والی اطلاعات نے ہمیں ماضی میں جھانکنے ر مجبور کردیا ہے گزرے دنوں کی یادوں کا تذکرہ کرنے سے پہلے تازہ اطلاعات پر ایک نظر ڈالتے ہیں ، شنید ہے کہ فائنل رائونڈ کی ناکامی کے بعد بھی ”دھاوا بولنے” والوں نے حالات سے کوئی سبق سیکھنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ اپنی غلطی کا اعتراف کرنے کے لئے جس اخلاقی جرأت کی ضرورت ہوتی ہے اس کا وجود ”عنقا” ہے اور سوشل میڈیا پر چلنے والی بعض اطلاعات (درست یا غلط کی ذمہ داری سوشل میڈیا ٹرولز پرعاید ہوتی ہے)کے مطابق فائنل رائونڈ کے ناکام و نامراد ذمہ دار نے ”جیل بھرو تحریک” کا آئیڈیا فلوٹ کردیا ہے اس پر بات کرنے سے پہلے ماضی کے دریچوں میں جھانکنے کی جوبات ہم نے کی ہے ، اگر اس پر نظر ڈالی جائے تو شاید”فائنل پلس کال” یعنی جیل بھرو تحریک کا آئیڈیا مارکیٹ میں پھینکنے والوں کو بھی کچھ احساس ہو جائے اور وہ یا تو بے خطرکود پڑ آتش نمرود میں عشق کے نظریئے پر عمل کرنے کی جرأت کریں یا پھر”پسپائی” کو ذہن میں رکھتے ہوئے ابھی سے ”یوٹرن” کے اپنے نظریئے اور سٹرٹیجی کو بھی مد نظر رکھیں اور پتلی گلی سے نکلنے کی سوچ اپنا لیں ، کیونکہ ”یوٹرن” تو ان کا اوڑھنا بچھونا ہے ہی خیر ابھی اس بات کو یہیں رہنے دیتے ہیں اور ماضی کے دھندلکوں میں سفرکا آغاز کرتے ہوئے اس”جیل بھرو تحریک” کا تذکرہ کر لیتے ہیں جو پاکستان کی سیاسی تاریخ کا حصہ ہے قیام پاکستان کے بعد صوبہ سرحد میں جب قیوم خان کی فسطائی حکومت کو ناجائز طور پر مسلط کیا گیا تو اس دوران باچا خان اور ان کے ماننے والوں پرزمین تنگ کی گئی ، باچا خان کو پابند سلاسل کیا گیاتو ان کے ہزاروں ورکرز نے ازخود”جیل بھروتحریک” کا آغاز کیااور اپنے اپنے علاقوں کے تھانوں میں جا جا کر خود کو گرفتار کرنے کے لئے پیش کیا نہ جانے پورے صوبے سے کتنے ہزار افراد نے گرفتاریاں پیش کیں اور سالہا سال تتک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے اور نہ جانے کتنوں کے جنازے ہی وہاں سے برآمد ہوئے اور بقول مرزا غالب ”قید حیات ” سے ہی چھٹکارا پانے میں کامیاب ہوئے یہ ایک تاریخ ہے جس کو اگر غیر جانبدار مورخ مل جائے و وہ اس تحریک کو سنہرے الفاظ سے مزین کرکے ” یادگار” بنا دے یعنی بقول فیض احمد فیض
وہ ہمیں تھے جن کے لباس پر سررو سیاہی لکھی گئی
رہ یار ہم نے قدم قدم تجھے یاد گار بنا دیا
اب”فائنل کال” کی شکست وریخت کے ملبے سے مبینہ طور ایک اور ”مس کال” کی کوششیں شروع کر دی گئی ہیں مگر اب کی بار یہ ”کال”ان اوورسیز پاکستانیوں کو دی گئی ہے جو گزشتہ کئی برس سے ایک”گوئبلز نما” منفی پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر صرف گالم گلوچ کے ہتھیاروں سے لیس ہیں یاپھر وہ چند سابق صحافی ، ریٹائرڈ حضرات اور وی لاگرز ہیں جو پہلے ہی ملک سے بھاگ کر واپس آنے کی جرأت سے عاری ہیں ایسے لوگوں سے یہ توقع رکھنا جواپنے ہی ملک کے خلاف معاندانہ پروپیگنڈہ کرکے ڈالر کما رہے ہیں اور وہاں پاکستان کی نئی نسل کوگمراہ کرکے ان کے ذہنوں میں اپنے ہی وطن کے خلاف زہر بھر رہے ہیں اور جن کی ”طلب”کے حوالے سے ملکی ادارے کب سے منتظر ہیں کیا یہ لوگ جرأت کرکے ایک اور کال پر ”جیل بھرو تحریک” کا حصہ بننے کو تیار ہوں گے ؟ مگر ان کی حقیقت تو سب کو معلوم ہے کہ
نہ خنجر اٹھے گا، نہ تلوار ان سے
یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں
آخر نوبت بہ ایں جا(کیوں)رسید؟ کیونکہ اب تک جن بے چاروں کو جذباتی طور پر ”بلیک میل” کرے یعنی ان کے جذبات کو انگیخت کرکے اپنے ہی ملک کے خلاف دھاوے پر اکسایا گیا اور نو مئی کے بعد مزید دھاوے ”سٹیج” کئے گئے مگر جب ان میں ملوث لوگوں کو پکڑ کر قانون کے حوالے کیا گیا تو اب ان کا کوئی پرسان حال بھی کوئی نہیں ہے بلکہ بار بار صرف بے چارے ورکروں کو میدان میںاتارا گیا جبکہ موقع پا کر ”لیڈران کرام” یاتو پتلی گلی سے فرار ہو گئے یا دھرنے میں شریک ہی نہیں ہوئے مرزا نے شاید ایسے مواقع کے لئے کہا تھا کہ
کعبہ کس منہ سے جائو گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
اب یہ جو اطلاع یا ”افواہ” گردش کر رہی ہے کہ بیرون ملک سے تحریک انصاف کے حامی آکر جیل بھرو تحریک کا(بمع اہل و عیال) حصہ بنیں گے تواس کاایک یہ مقصد ہو سکتا ہے کہ ”فائنل کال” کی ناکامی کے بعد اور خاص طور پر ” لیڈران کرام” کی ناکامی اور ”غلط حکمت عملی” کے بعد ”جھوٹ کا ایک طومار ”باندھ کر کارکنوں کے پست حوصلوں کومایوسی کی انتہائوں کو چھو لینے سے بچانے اور انہیں ساتھ رکھنے کی حکمت عملی کے تحت اپنے ساتھ جوڑے رکھنے کی آخری کوششیں ہوں ، بہرحال جو بھی ہو یہ بات طے ہے کہ اس کے بعد ملک کے اندر موجود ورکروں سے تو یہ توقع فضول ہے کہ وہ ایک بار پھر اس قسم کے”بوبی ٹریپ” میں پھنس کر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحویل میں جانے پر آمادہ ہو سکیں گے کیونکہ انہیں پہلے ہی احساس ہو چلا ہے بقول ڈاکٹر راحت اندوری مرحوم
مجھ کو رونے کا سلیقہ بھی نہیں ہے شاید
لوگ ہنستے ہیں مجھے دیکھ کے جاتے جاتے
اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے
عمر گزری ہے ترے شہر میں آتے جاتے

مزید پڑھیں:  اشرف غنی طالبان اور پاکستان کا مفاد