تہذیب کا پہلا زینہ نفاست ہے اور نفاست کا احساس ماحول سے جنم لیتا ہے ۔ دنیا بھر کے ماحول کو خوبصورت بنانے کے لیے لوگ پھولوں کا سہارا لیتے ہیں ۔ جن ممالک اور شہروں میں تہذیبی ترقی ہوئی ہے وہاں پر ہر طرف پھولوں کی دکانیں نظر آتی ہیں ۔ لوگ پھول خریدتے ہیں اور ایک دوسرے کو تحفے میں دیتے ہیں اور اپنے گھر وں اور دفتروں کو پھولوں سے سجاتے ہیں ، مریضوں کی عیادت کرتے ہوئے انہیں پھول پیش کرتے ہیں ۔ کسی کی قبر پرفاتحہ پڑھنے کے لیے جاتے ہوئے اس قبر پر پھول رکھ دیتے ہیں ۔ غرض تہذیب یافتہ انسان اپنے جذبات کا اظہار پھولوں سے کرتے ہیں اور ماحول کو صاف ستھرا اور خوشگوار رکھنے کے لیے بھی پھولوں کا سہارا لیا جاتا ہے ۔ پشاور شہر جسے کسی زمانے میں پھولوں کا شہر کہا جاتا تھا اس میں دوربین لے کر ڈھونڈیں تب بھی آپ کو پھولوں کی دکانیں نظر نہیں آتیں ، پنجاب سے دو تین من پھولوں کی پتیاں چوک یادگار آتی ہیں جو کسی شادی بیاہ کی تقریب میں استعمال ہوتی ہیں ۔ اگر حساب لگایا جائے تو ہماری آبادی کے ٩٩ فیصد لوگوں نے زندگی میں کبھی پھول نہیں خریدے ۔ ایسا نہیں ہے کہ لوگوں کے پاس وسائل نہیں ہیں ۔ اس شہر میں ہزاروں کی تعداد میں قیمتی گاڑیاں ہر مہینے خریدی جاتی ہیں ،روزانہ کروڑوں روپے کے گوشت کے تکے اور کڑاہیاں کھائی جاتی ہیں ۔ روز شادیوں اور دیگر تقریبات میں لاکھوں روپے اُڑائے جاتے ہیں ۔ مگر اس قوم کے اجتماعی لاشعور میں پھولوں سے محبت اور رغبت نہ ہونے کے برابر ہے ۔ ہالینڈ سالانہ پاکستان کے کل جی ڈی پی سے زیادہ صرف پھولوں کے کاروبار سے کماتا ہے ۔ اسی طرح یورپ اور جاپان میں سالانہ اربوں ڈالرز پھولوں کے کاروبار میں لگائے جاتے ہیں ۔ پیرس میں صبح سویرے ڈھائی ہزار پھولوں سے لدی گاڑیاں داخل ہوتی ہیں ۔یہی حال استنبول کا ہے ۔ آپ اپنے گھروں میں دیکھیں آپ کو گلدان نہیں ملیں گے ۔ اگر کہیں اکا دکا گلدان مل بھی جائے توا س میں پلاسٹک کے پھول ہوں گے ۔ پھولوں کا ہونا کیوں ضروری ہے ؟ یہ سوال شاید بیشتر لوگوں کے ذہنوں میں ہوگا ۔١٦٦٣ میں ویانا میں تاریخ کی ایک ایسی جنگ لڑی گئی تھی جس کی وجہ سے ویانا شہر کا نقشہ بدل گیا تھا ۔ جب جنگ ختم ہوئی اور لوگ ویانا شہر میں جمع ہوگئے تو وہ صرف اس بات پر ملول تھے کہ گھوڑوں اور فوجیوں نے ویانا شہر کے پھولوں کو رونڈ ڈالا تھا ۔ ان میں سے کسی کو بھی اس بات کی فکر نہیں تھی کہ ان کا گھر جلا دیا گیا تھا اور ان کے دیگر املاک کو نقصان پہنچا تھا ۔ پھر آنے والے کئی دہائیوں تک ویانا کے ادیب پھولوں کی تباہی کا رونا روتے رہے اور نظمیں اور ناول لکھتے رہے ۔ پھر ویانا کے لوگوں نے مسلسل چند برسوں تک ویاناکے ہر حصہ میں پھول لگانے شروع کیے جس سے چند برسوں میں ویانادنیا کا وہ شہر بن گیا جو پھولوں اور اپنی خوبصورتی کی وجہ سے مشہور ہوگیا ۔ ویانا شہر آج بھی اپنی خوبصورتی اور پھولوں کی وجہ سے مشہور ہے ۔ چین نے جب ترقی کا سفر شروع کیا تو اپنے شہروں میں پھولوں کی افزائش پر توجہ دی آج چین کے سارے شہر پھولوں کی وجہ سے دعوت نظارہ دیتے ہیں ۔ پاکستان میں صرف لاہور ایک ایسا شہر ہے جہاں پھولوں کی قدر کی جارہی ہے لیکن لاہور اب بھی دنیا کے شہروں سے بہت پیچھے ہے ۔ پھولوں سے لوگوں کی زندگی میں ایک خوشگوار تبدیلی آتی ہے ۔ ماہرین کہتے ہیں کہ انسانی ذہن کو پھولوں کی خوشبواور خوبصورتی سے کثافتوں سے دور کیا جاسکتا ہے ۔ ہم جس بے دردی سے کے ساتھ شہروں میں سیمنٹ کے بلڈنگ بنارہے ہیں اور سبزے کاخاتمہ کررہے ہیں اس سے ہمارے ماحول پر بھی اثر پڑ رہا ہے اور ساتھ ہی انسان کو درکار ماحول دوست فضا کو بھی ختم کررہے ہیں ۔ اس شہر میں یونیورسٹیاں ، کالجز ، سکولز اور سرکاری و غیر سرکاری دفاتر اور مقامات ہیں جن پر توجہ دے کر یہاں کا ماحول انسان دوست بنایا جاسکتا ہے ۔ یہاں بڑے بڑے پلازے تو بن گئے ہیں لیکن ان میں کوئی پھولوں کی دکان نہیں بن رہی ۔ ہمارے کاشتکار اگر دیگر پودوں کے ساتھ ساتھ گلاب اور دیگر پھول اُگا کر مارکیٹ میں فروخت کرنا شروع کردیں تو یہ زیادہ منافع بخش کاروبار ہے ۔ ایگر یکلچر یونیورسٹی اور زراعت سے وابستہ دیگر اداروں کو حکومت پابند کرسکتی ہے کہ وہ پھولوں کی صنعت کو پروان چڑھائیں جس سے لوگوں کو روزگار ملے گا اور شہر کی کثافت دور ہوجائے گی ۔ ہم کلاشنگوف خریدنے کی جگہ اگر پھول خریدنا شروع کریں گے تو شاید ہماری اگلی نسلیں دہشت گردی سے بچ جائیں ۔ پھولوں کے کاروبار کے حوالے سے پاکستان اس وقت سری لنکا سے بھی پیچھے ہے ۔ دیکھا جائے تو پاکستان کی آبادی اور رقبہ اور وسائل سری لنکا سے کئی گنا زیادہ ہیں لیکن تعلیم اور نفاست میں وہ ہم سے کہیں آگے ہیں ۔ بطور انسان ہمارا وجود دنیا میںہے اور ہم اس عالمگیر دنیا کا حصہ ہیں ۔ دنیا اب خوبصورتی نفاست اور شائستگی کی طرف جارہی ہے ۔ دنیا کے شہر پھولوں اور خوبصورتیوں کی وجہ سے پہچانے جارہے ہیں ۔ دنیا میںپھولوں اور خوشبوؤں کی دکانیں بڑھ رہی ہیں ۔ اس کام میں ہر برس جدت آرہی ہے مگر ہم ہر گزرتے برس کے ساتھ اس سلسلے میں کوتاہی برت رہے ہیں ۔ ہمارے سکولوں میں پھول نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے بچے لطیف ماحول سے آشنا نہیں ہورہے ۔ ہمارے گھروں میں پھول نہ ہونے سے ہمارے ذہنوں پر منفی اثر پڑ رہا ہے ۔ ہم زندگی بھر پھول نہیں خریدتے ایک دوسرے کو پھولوں کا تحفہ نہیں دیتے ، یہاں تک کہ ہمارے خوشی کے موقع پر ہاروں میں پھولوں کی جگہ نوٹ ہوتے ہیں ۔ ہم مریضوں کی عیادت کے لیے جب جاتے ہیں تو پھول لے کر نہیں جاتے ۔ یہ سب وہ پیمانے ہیں جو اس بات کی غمازی کررہے ہیں کہ ہم تہذیب اور جمالیاتی ترقی سے ابھی بہت دور ہیں ۔ ہمیں اس سلسلے میں بھی فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا ماحول صاف ہو ، پھولوں اور گلابوں کی وجہ سے ایک ایسا ماحول بنے جس میںہم سانس لے سکیں ۔اس لیے کہ انسان جس ماحول میں رہتا ہے وہ اس کا عادی ہوجاتا ہے اور پھر جب وہ کسی اچھے ماحول میں جاتا ہے تو اس کا دم گھنٹے لگتا ہے ۔ ہمیں صفائی کے حوالے سے جومسائل درپیش ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم مسلسل گندے ماحول میں رہتے آئے ہیں ۔ اور اس گندگی کو ہم نے اپنے زندگی کا حصہ بنا ڈالا ہے اورجب بھی ہم اس گندگی کو ختم کرنے کا سلسلہ شروع کرتے ہیں تو ہمارا لاشعور ہمیں ایسا کرنے سے منع کرتا ہے ۔ دنیا کے کئی ممالک متحدہ عرب امارت کو صرف پھول بیچ کر اربوں ڈالرز کما رہے ہیں ۔پھولوں سے محبت کا کرشمہ دیکھیں کہ ہالینڈ میں خوشحالی ہے ۔ وہ شہر جہاں پھولوں کا کاروبار زیادہ ہے دنیا کے خوشحال ترین شہر ہیں ۔اور جن شہروں میں گوشت فروش زیادہ ہیں وہاں حالات رہنے کے قابل نہیں ہیں ۔