ون واٹر سمٹ سے وزیر اعظم کا خطاب

سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں منعقدہ ون واٹر سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پانی کی کمی دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ، پانی کے شعبے میں بہتری اور کمی کو پورا کرنے کے لئے اقدامات اور مشترکہ کاوشیں کرنی ہوں گی ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں گلوبل وارمنگ کی وجہ سے موسموں پر منفی ا ثرات تو یقینا پڑ رہے ہیں جن کی وجہ سے نہ صرف بارشوں اور پہاڑوں پر برف باری میں کمی واقع ہو رہی ہے ، تاہم جس طرح انسانوں نے قدرت کے بخشے ہوئے تحائف یعنی جنگلات کو تباہی سے دو چار کرنا شروع کر رکھا ہے اور ہزار ہا ایکڑوں پر پھیلے ہوئے جنگلات کو کاٹ کاٹ کر آبادیاں بسانی شروع کی ہیں ان سے بھی موسموں پر منفی اثرات پڑتے جارہے ہیں ، بارشوں اور برفباری کی شدت میں کمی سے قدرتی وسائل کم ہوتے جارہے ہیں ، پہاڑوں پر زندگی تبدیل ہوتی جارہی ہے ، اس حوالے سے اگر اپنے ہی ملک کے ٹھنڈے علاقوں کا جائزہ لیں تو چند برس پہلے تک وہاں شدید گرمی میں بھی موسم انتہائی سرد ہوا کرتا تھا اور لوگ گرمی کا موسم گزارنے کے لئے تین چار مہینے تک خاندان سمیت وہاں قیام کرنے جایا کرتے ھے مگر اب وہاں بھی لوگ گرمی کے موسم میں پنکھوں اور اب ایئر کنڈیشنرز کا استعمال کرنے پر مجبور ہیں ، اس لئے کہ ان علاقوں کو ٹھنڈا رکھنے کے لئے موجود جنگلات کا صفایا جنگل مافیا نے متعلقہ حکام کے ساتھ ملی بھگت کرکے کرنا معمول بنا رکھا ہے ،جبکہ پہاڑی سلسلوں پر گرمی کے موسم میں بھی بعض مقامات پر برفباری کے مناظر دیکھنے کو ملتے تھے ، اب وہاں گلیشیرز تیزی سے پگھلتے جارہے ہیں اور نہ صرف موسم میں بہت زیادہ تبدیلی ہو رہی ہے ، زمین کا کٹائو جاری ہے بلکہ پا نی تیزی سے دریائوں میں بہہ کر ضائع ہورہا ہے دوسری جانب ہم نے پانی کے اس ”خطرناک” ضیاع کے آگے کوئی بند باندھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی اور تربیلاڈیم ، ورسک ڈیم ، منگلا ڈیم یا چند چھوٹے چھوٹے ذخائر قائم کرنے کے علاوہ جو اب مٹی سے آہستہ آہستہ بھرنے کی صورت حال سے دو چار ہیں ، مزیدکوئی بڑا آبی ذخیرہ تعمیر کرنے کے بارے میں سوچا ہی نہیں بلکہ ضد اور انا کی وجہ سے ”کالا باغ ڈیم” کے ایک ایسے منصوبے پر بحث مباحثے میں الجھے رہے جس پر چھوٹے صوبوں کے شدید تحفظات ہیں جبکہ صرف بڑا صوبہ اس کی تعمیر پر ایک مدت تک اڑا رہا۔ کالا باغ ڈیم کی ”مخالفت” کی سزا کے طور پر ایک مضبوط لابی بھاشا ڈیم کو تکمیل کے مراحل سے گزرنے نہیں دینا چاہتی ، اب بھی بھاشا ڈیم کی راہ میں یہی لابی روڑے اٹکا رہی ہے یوں جو پانی ہم ذخیرہ کرکے اپنے مستقبل کی ضرورتوں کے کام لا سکتے ہیں اس کو دریا برد کرکے سمندر میں پھینک کر ضائع کیا جارہا ہے اور اس وجہ سے ہماری بجلی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کا جو حل آئی پی پیز کے ذریعے نکالنے کی کوشش کی گئی اس سے ملک پر پڑنے والے بوجھ نے صرف ترقی کے سارے خواب چکنا چور کردیئے ہیں بلکہ پانی سے بنائی ہوئی تین چار روپے یونٹ بجلی کے مقابلے میں 75/70 روپے یونٹ بجلی عوام پر مسلط کرکے شاید مشکلات سے دو چار کیا گیا ہے اور یہ ایسا عفریت ہے کہ جس سے محاورتاً کمبل بنا کر جان چھڑانے کی ہر کوش کوناکامی سے دو چار کر دیا گیا ہے ، دوسری جانب پاکستان کے دریائوں کو بھارت کے ساتھ ”بیچ” کر جوتباہی لائی گئی وہ بھی ”وطن فروشی” کی ایک خاص علامت کے طور پر یاد رکھی جائے گی ، مستزاد یہ کہ بھارت نے ہمارے حصے کے دریائوں پر بھی ناجائز قبضہ کرکے ان کارخ اپنی جانب موڑ کر ہمیں ہمارے حق سے بھی محروم کردیا اور اب وہ جب چاہتا ہے ہمارے دریائوں کو اپنے ڈیموں کی جابن موڑ کر ہمارا پانی”بند” کر دیتا ہے یا جب چاہتا ہے راتوں رات پانی چھوڑ کر ہمیں سیلاب میں غرق کردیتا ہے اس حوالے سے بھی ایک سابق کمشنر واٹر نے مبینہ طور پر بھارت کے ہاتھوں”فروخت” ہو کر بیرون ملک جانے اور اربوں ڈالر وصول کرکے پاکستان کے حصے پر جس طرح سمجھوتہ کیا وہ بھی خاصا چشم کشا ہے اس دوران میں اگرچہ بعض واقفان حال ماہرین نے ہمالیہ سے نکلنے والے پانی کے منابع کی جانب توجہ دلاتے ہوئے حکومت کو مشورہ دیا کہ اگر ایک خاص مقام پر پانی کا رخ موڑ دیا جائے تو اس سے ہم بھارت کی جانب سے ”پانی کے بلیک میلنگ” سے نجات پا سکتے ہیں مگر اس طرف بھی کوئی توجہ نہیں دی جا رہی جبکہ اسی طرح کابل کی جانب سے دریائے کابل پر ڈیم تعمیر کرنے سے بھی ہمارے ہاں پانی کا بحران پیدا ہونے کے جو امکانات ظاہر کئے جارہے ہیں اسی طرح کوہ سلیمان سے آنے والے پانی کے دریائوں کو روکنے کی جوسبیل (بھارتی امداد سے) کابل انتظامیہ کر رہی ہے ان کا حل بھی سوچنا چاہئے کہ دریائے چترال کا رخ اگر ارندو کے مقام پر موڑ کر پانی کو مہمند کے علاقے سے واپس دریائے ورسک میں ڈالا جائے تو چاروں جانب سے ہمیں خشک سالی کا شکار کرنے والی سازشیں ختم ہوسکتی ہیں بہرحال ان تمام منصوبوں کے لئے عالمی فنڈز کی ضرورت ہو گی اور اس کے لئے اقدامات لازمی ہیں۔

مزید پڑھیں:  حماس سے معاہدہ کی توثیق