ایس آئی ایف سی کے تعاون سے اوجی ڈی سی ایل نے بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی میں گیس کے ذخائر دریافت کرکے پیداوار کاآغازکردیا ہے جویقینا ایک خوش آئند خبر کے طور پرسنا گیا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے ایس آئی ایف سی کی سہولت کاری سے توانائی کے شعبے میں یہ ایک اہم پیشرفت ہے تاہم دوسری جانب عالمی مالیاتی فنڈ نے گیس کی قیموں میں اضافے کے لئے نوٹیفیکیشن جاری کرنے کے حوالے سے 15 فروری 2025ء تک کی ڈیڈ لائن بھی دے دی ہے جس نے گیس ک نئے ذخائر کی دریافت کی خوشیوں کو ماند کر دیا ہے اور سرکاری گیس کمپنیوں نے 53.47 فیصد تک گیس مہنگی کرنے کامطالبہ کیا ہے حکومتی ذرائع کے حوالے سے سامنے آنے والی میڈیارپورٹس اس بات کی غماز ہیں کہ آئی ایم ایف نے ششماہی گیس ٹیرف کی ایڈجسٹمنٹ سے متعلق شرط رکھی ہے اور آئندہ سال 15 فروری تک گیس کی قیمتوں کا نوٹیفیکیشن کرنا لازمی ہو گا صورتحال یہ ہے کہ حکومت گزشتہ کئی سال سے بجلی اور گیس کے نرخوں میں مسلسل اضافہ کرتی چلی جارہی ہے جبکہ پٹرولیم کی جانب سے احتجاج کی بناء پر اضافہ زیادہ مگر کمی آٹے میں نمک کے برابر کرکے عوام کولالی پاپ تھما دیتی ہے جہاں تک گیس کے نرخوں کاتعلق ہے تو جو چیز”موجود” ہی نہیں اس کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کن بنیادوں پر کیا جاتا ہے؟اب تو صورتحال یہ ہے کہ سردیوں میں تو چھوڑ ، گرمی کے دنوں میں بھی گیس دستیاب نہیں ہوتی اور اگر ایسی صورت میں ڈیرہ بگٹی سے مزید ذخائر بھی دریافت ہونے کی ”خوش کن” خبر آرہی ہے تو اس کا عوام کو کیا فائدہ؟ کیونکہ عوام کو تو گھروں کے چولہے جلانے کے لئے بھی گیس دستیاب نہیں ہو رہی چہ جائیکہ مزید گیس ملنے سے وہ خوشیاںمنائیں بلکہ گیس نہ ملنے پر بھی ان پر نرخ بڑھانے کا ظلم وہ کب تک برداشت کر سکیں گے اس حوالے سے ہم آئین کی شق 158 کا حوالہ دے کر سرکار کو یہ یاد دلانا ضروری نہیں سمجھتے کہ قدرتی گیس کے حوالے سے متعلقہ آرٹیکل کیا کہتا ہے مگر اتنا ضرور عرض کرنا چاہتے ہیں کہ جب عوام کو صرف کھانا پکانے کے لئے بھی ان کے اپنے صوبے سے ملنے والی گیس بھی نہیں دی جاتی تو اس گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ کرنے کا کیا جواز بنتا ہے ، آئی ایم ایف تو عالمی مہاجن ہے جس کاکام مقروض ملکوں کے وسائل کو لوٹنا ہے مگر مہنگائی میں پستے ہوئے عوام کب تک یہ ظلم برداشت کر سکتے ہیں اس پر ضرور سوچنا چاہئے۔