کشمیری مزاحمت کا 1988میں شروع ہونے والا دور چار عشرے بعد اب اپنے انجام کو پہنچ رہا ہے۔ جس کا یہ مطلب نہیں کہ اب سرنگ کے دوسری جانب روشنی کے آثار بھی باقی نہیں رہے۔صدیوں پر محیط کشمیری معاشرے کی گر کر سنبھلنے اور ڈوب کر اُبھرنے کی صلاحیت،عالمی اور علاقائی تبدیلیوں میں نئے امکانات کی تلاش کی خُوبُواس کا سب سے نمایاں وصف اور پوٹنشیل رہا ہے۔سلاطین کے ”گریٹر کشمیر ”کے بعد اس کا ہر دورپہلے سے تاریک اور کٹھن رہا مگر کشمیریوں نے ہر دور کو بہرطور گزار ہی دیا اور اپنی تہذیب وثقافت اور تشخص کو بھی زندہ رکھنے میں کامیابی حاصل کی ۔رواں اور پیش آمدہ حالات میں ان کے لئے نیاکچھ بھی نہیں فقط اس بات کے کہ اب انہیں تاریخ کا ایک نیا معرکہ اور نیا مرحلہ درپیش ہے۔کشمیر ی اس مرحلے کو کس وقار شان اور ادا سے گزارتے ہیں دیکھنے کی چیز یہی ہے۔ایسے میں کشمیر کے سرکردہ راہنما دانشور اُستاد اور فلسفی پروفیسر عبدالغنی بٹ کی ایک گفتگو سوشل میڈیا پر وائرل ہے ۔ عبدالغنی بٹ جنرل پرویز مشرف اور من موہن مذاکرات کے دور میں دوبار مسلم کانفرنس کے صدر کی حیثیت سے حریت کانفرنس کے چیرمین رہ چکے ہیں اور وہ اس پیس پروسیس کا حصہ بھی رہے ہیں اور واقف حال بھی ۔اسی دوران ان کی دونوں طرف کی قیادت اور پالیسی سازوں سے ملاقاتیں بھی رہی ہیں ۔ چاروں عشروں پر محیط کشمیریوں کی رواں تحریک اور پروفیسر عبدالغنی بٹ کاسرگرم سیاسی سفر ایک ساتھ شروع ہوا ہے ۔وہ کشمیر کے اسمبلی کے انتخاب میں حصہ لینے والے اتحاد مسلم متحدہ محاذ کے پلیٹ فارم سے اُبھرے اور پھر اسی اتحاد کی ناکامی کشمیریوں کی نئی نسل کو بیلٹ کو چھوڑ کر بُلٹ کی طرف مائل کرنے کی بنیاد ٹھہری ۔ وہ فارسی اور انگریزی کے اُستاد تھے اور ان کے آزادی پسندانہ خیالات کی بنا پر بھارتی حکومت نے انہیں ملازمت سے برطرف کیا تھا ۔کشمیرکی رواں تحریک کے لاتعداد بڑے نام پروفیسر عبدالغنی کے شاگرد ہیں۔پروفیسر عبدالغنی بٹ اب عملی سیاست سے لاتعلق خرابی ٔ صحت اورپیرانہ سالی کا شکار ہیں۔
پروفیسر عبدالغنی بٹ پاکستان اور بھارت کے پیس پروسیس کے دوران آل پارٹیز حریت کانفرنس کے چیرمین تھے اور اس حیثیت میں انہیں پاکستان اور بھارت کے حکمرانوں سے ملنے اور بات چیت کرنے کا موقع ملا ۔اس حوالے سے ان کا خیال ہے کہ بھارت کی قیادت میں اٹل بہاری واجپائی ایک صاحب بصیرت حکمران تھے جبکہ پاکستان میں جنرل پرویز مشرف دو ایسی شخصیات تھیں جو کشمیریوں کے نہ سہی باہمی مفاد میں حل کرنا چاہتے تھے ۔انہوںنے واجپائی کے ساتھ ایک ملاقات کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ واجپائی نے مخاطب کرتے ہوئے کہا ”پروفیسر اس گتھی کو اب سلجھانا پڑے گا اور اسے ہم ہی سلجھائیں گے”ان کے بقول واجپائی نے پاکستان سے رابطہ کرکے اس گھتی کو سلجھانے کی اپنی سی کوشش کی ۔ان کا تجزیہ ہے کہ بھارت کی قیادت میں واجپائی واحد شخص تھے جو آنے والے کل کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔جبکہ مشرف اور واجپائی دو ایسے لوگ تھے جو مسئلہ کشمیر کو اپنے انداز سے حل کرنا چاہتے تھے۔پروفیسر عبدالغنی بٹ کہتے ہیں کہ بھارت نے پانچ اگست کو ایک غلطی کی ہے جس کے بعد سے چین کے ساتھ اس کی مخاصمت بڑھ چکی ہے۔اگر بڑی طاقتوں کے درمیان بڑی لڑائی ہوتی ہے تو یہ خطے کے مستقبل کے لئے تباہ کن ہوگی اور یہ وہ صورت حال جو بھارت پاکستان اور چین تینوں کی قیادتوں کو مجبور کرے گی کہ وہ مسئلہ کشمیر کا کوئی حل نکالیں ۔اس صورت حال کو روکے بنا خطے میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔یہاں وہ بھارتی قیادت کو بھی پیغام دیتے ہیں کہ کشمیری ایک تضاد کے ساتھ بھارت کے ساتھ رہ رہے ہیں ۔غالباََ پروفیسر صاحب یہاں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ کشمیری حالات کے جبر کے تحت اور کوئی آپشن نہ ہونے کی وجہ سے بھارت کے ساتھ رہنے پر مجبور ہیں ۔اسی بات کو نرم تر رکھنے اور دریا کو کوزے میں بند کرنے کے لئے انہوں نے تضاد کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ اگر بھارتی کشمیر پر حکمرانی کو چنیں گے تو وہ یہ نہ بھولیں کہ کشمیری حکمرانی کرتے رہے ہیں گوکہ مغلیہ دور سے بھارت تک طویل مدت سے انہوں نے اپنے اوپر حکمرانی نہیں کی مگر کشمیرکے اجتماعی ضمیر نے ان میں سے کسی حکمرانی کو دل سے قبول نہیں کیا ۔کشمیری ایک دماغ کا نام ہے اور ہر حکمرانی کے دور میں یہ کلاس کے طور پر زندہ رہا ہے۔پروفیسر صاحب کی طرف کشمیری سماج کو ایک” کلاس ” کے طور سے کیا مراد ہے؟تھوڑی دیر کے لئے میں اس کے مفہوم اورمعانی تلاش کرنے کی کوشش کی تو مجھے اسی کی دہائی میں کشمیر کے ایک اور شہ دماغ غلام نبی ہاگر ایڈووکیٹ کے ہفت روزہ ”اذان” میںلکھے گئے سلسلہ ہائے مضامین کا ایک پیرا گراف یاد آیاجنہیں بعد میں میں نے1992میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ”کشمیر بیلٹ سے بُلٹ تک ” میں بھی حوالے کے طور پر شامل کیا تھا ۔2005میں کشمیر کے ایک سفر میں غلام نبی ہاگر و سے معروف کشمیری راہنما شبیر احمد شاہ کی رہائش گاہ پر ملاقات ہوئی تھی ۔غلام نبی ہاگر و لکھتے ہیں کہ بھارت کے قبضے کے بعد کشمیری محوبالذات ہوگئے اس کے لئے انہوں نے Self centredکی اصطلاح استعمال کی تھی ۔گویاکہ وہ اپنی اجتماعی اور قومی ذات اور وجود میں گم ہوگئے ۔اپنا تشخص اپنی انفرادیت اپنا ماضی اور اپنی سوچ کے دھارے سب الگ کرکے بیٹھ گئے ۔اسی لئے وہ ہمیں بھارت کے بہت سے سانحات پر نہ روتے نظر آتے ہیں نہ اس کے پرمسرت لمحات میں پرجوش ہو کر رقص کناں دکھائی دیتے ہیں ۔انہوں نے اپنے رونے اور ہنسنے کے لئے الگ دن چن لئے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی تہذیب ثقافت اور شناخت کی کشتی کو ہر طوفان سے بچا کر نکالنے میں کامیاب ہوتے رہے ۔ میرے خیال میں پروفیسر عبدالغنی بٹ نے اسی تاریخ کو ایک لفظ ”کلاس ” میں سمو دیا ہے۔اپنی گفتگو کے آخری موڑ پر وہ اچانک کشمیر ی اور اُردو کو چھوڑ کر انگریزی میں بھارت کے حکمران طبقات سے یوں مخاطب ہوتے ہیں
"If Indians choose to rule Kashmir they will have understrand that Kashmiri is a ruler and ruler does not want to be ruled” اایک کشمیری فلسفی اور سیاسی راہنما گویا کہ بھارتی قیادت کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ کشمیری اپنے دل کا حکمران ہے اور خود اپنے دل کے حکمرانوں سے آپ تخت وتاج چھین نہیں سکتے اور نہ ہی دلوں کو طاقت کے ذریعے زیر کرکے مطیع اور فرماں بردار بنایا جا سکتا ہے۔آپ ان پر طاقت کے بل پر حکمرانی کرسکتے ہیں مگر ان کے دلوں کو تسخیر نہیں کر سکتے ۔پروفیسر عبدالغنی بٹ کے خیالات میں احساسِ زیاں بھی ہے مگر ان کے خیالات میں امید کے دو جگنو بھی دکھائی دیتے ہیں ۔ان میں پہلا اعتماد انہیں عام کشمیری کے حالات سے سمجھوتہ نہ کرنے کی روش میں دکھائی دیتا ہے اورکشمیریوں کے حالات سے سمجھوتہ نہ کرنے کی یہی روش جب چین کے ساتھ بھارت کی مخاصمت کے ساتھ جڑتی ہے تو انہیں حالات بدلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔
Load/Hide Comments