قیادتی طور پر یتیم پاکستان کے لئے سکیورٹی اسٹیٹ کا نعرہ لگا لگا کر ہمیں گزشتہ 70 سالوں سے پاگل بنا یا جا رہا ہے ۔ لیکن حقیقت تو اب سامنے آرہی ہے کہ جتنا نقصان پاکستان کو اس کے اپنے لوگوں نے پہنچایا ہے اتنا نقصان کبھی کوئی اور ریاست پہنچا ہی نہیں سکتی تھی ۔ معاشرے میں ہر سو پھیلی بے یقینی نے جو نفسا نفسی کی فضا قائم کر دی ہے وہ دن بدن معاشرتی معاملات میں بے حسی پھیلاتی جارہی ہے ۔ لاقانونیت ایسی کہ لاحول۔ کوئی پر سان حال نہیں ہے۔ ملک کو ایسے لاوارثوں کی طرح چھوڑا ہوا ہے جیسے اس سے تو کبھی اپنی پرکھوں کے لئے قارون کے خزانوں کو شرمانے والی جاگیریں بنائی ہی نہیں تھیں ۔ 2022 میں عمران خان کی حکومتی بے دخلی کے بعد سے آج تک جو دردناک دن دیکھنے پڑ رہے ہیں وہ شاید وطن عزیز کی تقسیم کے وقت ہی دیکھنے پڑے ہونگے ۔ جمہوریت کے حامی اور انتہائی تجربہ کار ، سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے اور ماضی میں کئی مرتبہ حکومتی مشینری کا حصہ بننے والو ں سے ہر گز یہ توقع نہ تھی کہ وہ عوام ، معیشت ، عالمی دنیا میں وقار، سب کو دبائو پر لگا کر صرف و صرف اپنی ہر پالیسی کا محور”عمران خان کی مقبولیت کے خاتمے”کو بنا لیں گے۔ اگرحکمران اپنا محور عوام اور اس کی فلاح کو رکھتی تو عمران خان کی مقبولیت تو اپنی موت آپ ہی مر چکی ہوتی ۔ دنیا میں کئی ریاستیں ایسی ہیں جو معاشی، اندرونی خانہ جنگی ا ور دیگر مسائل سے دوچار ہوئی ہیں۔ دوست ممالک سے ہر وقت کی فیور مانگ مانگ کر انہیں اتنا ” اور برڈنائز” کر دیا ہے کہ اب وہ خود کترانے لگے ہیں ۔ ظاہر ہے کون ایسی ریاست کی مدد کے لئے آئے گا جہاں سیاسی بے یقینی عروج پر ہو جہاں آئی ایم ایف جیسے عالمی ادارے کو بھی اپنی سیاسی دشمنی کی جنگ میں گھسیٹا جارہا ہو ۔ ملک کے اعلی اداروں کے درمیان تصادم، حتی کہ سپریم کورٹ کے ججز بھی اس تفاوت کاحصہ بننے لگیں تو کیا بربادی میں کوئی کسر باقی رہ جاتی ہے؟مگر ابھی بھی جمہوریت کا راگ الاپنے والو ں کے پاس ملک کو بے حال کرنے کے بعد دینے کے لئے بہت سے بہانے موجود ہونگے، جس میں سر فہرست امریکہ اور بھارت کو مورد الزام ٹہرایا جائے گا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو کمزورکرنے کے لئے بہت سی ریاستیں سر گردان رہتی ہیں ، لیکن کیا ملکی تباہی پر دینے کے لئے یہ بہانہ کافی ہے ؟ کیا پاکستان کے علاوہ دیگر ریاستوں کی آپس کی دشمنی نہیں ہے؟ پھر وہ کیسے ترقی یافتہ بن گئیں؟ دراصل ، مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی مخالفت کی جگہ سیاسی دشمنی لے چکی ہے۔ جس میں سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کے لئے ہر قسم کا حربہ آزمایا جارہا ہے ۔ ورنہ یہی وہ ریاست تھی نہ جس نے بھارت کے آج سے کئی گنا زیادہ عدوات پسندانہ رویے کے ماحول میں بھی 1973کا آئین بنا لیا تھا ، جس نے 19 روز میں دنیا کی واحد سپر پاور کی مخالفت کو پس پشت ڈالتے ہوئے پاکستان کو ایک ایٹمی ریاست بنا دیا تھا ۔ لیکن پاکستان کی سیاست میں آج جس طرح کی سیاسی پولرائزیشن اور بد زبانی کا چلن ،خاص طور پر خان صاحب کی قیادت میں عام ہوا ہے ، اس نے سیاسی مذاکرات کے تمام دروازے بند کر دیئے ہیں ۔ عالمی دنیا میں پانچویں بڑی آبادی رکھنے والی ریاست کے فیصلے ایسے سڑکوں پر نہیں ہوسکتے ہیں جس میں مخالفین ذاتیات پر آجائیں ، عزت اچھالنا ، کارکنان کے مابین دشمنیاں قائم ہونا، عام ہوجائے۔ معاشی مسائل کا یہ تمام معاملہ صرف ” سیاسی عدم استحکامیت” کی وجہ سے پھیلا ہوا ہے۔ ایسے معاشی مسائل جس میں دیوالیہ ہونے تک کی نوبت آچکی ہو، جہاں رمضان جیسے ماہ کی حرمت بھی غربت کی وجہ سے ختم ہوتی جارہی ہو ، جہاں ستائے ہوئے لوگ صوم کی حالت میں بھی افطار کے لئے پھلوں کے حصول کو من و سلوی قرار دینے لگیں ، جہاں آٹے کا پا لینا، جان سے بڑھ کے ہوجائے ، اس حد تک گراوٹ کا خاتمہ تو یقینی طور پر ممکن ہے۔ وقت کے تقاضے کو سمجھتے ہوئے اب حکمرانوں کو عوام کا سوچنا ہوگایا اگر یہ بے حسی کے آخری مقام پر ہیں اور عوام کی اذیت سے انہیں مطلب نہیں ہے، تب بھی انہیں اپنی پارٹی کے مستقبل کو تو لازما سوچنا ہوگا کیونکہ اب یہ حکومت مزید وقت لیکر اپنی پارٹی کے بگڑے ہوئے امیج کو سدھار نہیں سکتی ہے۔ بلکہ اگر حالات یوں ہی خراب ہوتے رہے تو کیا بعید آئی ایم ایف ، دوست ممالک کی نظریں چرانے سے خدانخواستہ، ریاست اگر دیوالیہ کا شکار ہوجاتی ہے تو سیاسی جماعتوں کا یہ اتحاد اور اپوزیشن کی ضدیں، عوام اور ملک کا تو نقصان کریں گی ہی ساتھ ساتھ اپنا بھی ناقابل تلافی نقصان کریں گی ۔ اسوقت صرف چین ہے جو پاکستان کی امداد کے لئے کھڑا ہے لیکن آخر اس کو بھی کتنا آزمایا جائے گا؟ مسلسل دوست ملک چین سے ا مداد مانگنے اور بدلے میں کوئی کسی طرح کی معاونت فراہم نہ کرنے کے اس رویے نے چین کے مفکرین کو یہ نظریات دینے پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ” اب چین کو چاہیے کہ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات استوار کرئے کیونکہ پاکستان سے تعلقات اس کے لئے فقط زحمت ہیں ان حالات میں م لک میں ایک مضبوط عوامی حکومت کا قیام ضروری ہے جو، عالمی دنیا میں ریاست کے وقار کی بقا کے لئے ایک مستحکم اور متوازن خارجہ پالیسی تشکیل دے سکے ۔ تاہم ،اب بھی وقت ہے کہ تمام پارٹیز کے قائدین اپنی ذمہ داری کو پورا کرتے ہوئے مل بیٹھیں اور مذاکرات کے ذریعے تیزی سے بگڑتے ہوئے ان حالات کو قابو کرنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ اس سیاسی بھونچال کا خاتمہ محض مذاکرات کی ٹیبل پر ہی حل کیا جا سکتا ہے ورنہ اگر سیاسی دشمنیاں ہی نبھانی ہیں ، تو ابھی ہم جیسے اور پاکستانی ان کے من پسند کھیل کیلئے اگلا مہرہ ہیں !بہرحال ، یہ توآپ کو اور مجھے ماننا پڑئے گا کہ پاکستان کو آج تک اتنا نقصا ن بیرونی ہاتھوں نے نہیں پہنچایا جتنانقصان ،اندورنی ہاتھوں نے پہنچایا ہے۔ بزبان شاعر:
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے!!
Load/Hide Comments