دنیا بھر کی جتنی پرانی سیاست کی تاریخ ہے اتنی ہی پرانی سیاسی قیدیوں کی تاریخ بھی ہے وہ الگ بات ہے کہ اکثر اوقات ان کی نشاندہی نہیں ہوسکی یا نہیں ہونے دی گئی۔سیاسی قیدی جہاں آمریت کے دور حکومت میں ہوتے تھے بالکل اسی طرح اور اسی ڈھٹائی سے جمہوری حکومتی ادوار میں بھی مخالف پارٹی کے سیاستدانوں کو پابند سلاسل رکھا جاتاہے اور کبھی کبھار تو سیاستدان آزادی کی جنگ میں زندگی سے ہی آزاد ہوجاتاہے۔ ہماری طرح کے غریب اور ترقی پذیر ملکوں کیساتھ ساتھ نام نہاد جمہوری ملکوں بلکہ جمہوریت کے چیمپیئن ملک بھی سیاسی قیدی رکھنے میں عار نہیں محسوس کرتے ۔امریکہ جیسے جمہوری ملک میں بھی سیاسی قیدی ہوتے ہیں بیسویں صدی کے وسط میں سیاسی قیدی کی اسطلاح استعمال ہوئی ۔ امریکہ میں عالمی انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل بارہا سیاسی قیدیوں کیلئے آواز بلند کرچکی ہے اور اب بھی کوشاں ہے تاہم اس کے باوجود سیاسی قیدی اب میں امریکہ میں موجود ہیں۔امریکہ کے علاوہ بھی کئی ملکوں میں سیاسی قیدیوں کی تاریخ ہے۔ان میں چند مشہور لوگوں میں عالمی سیاسی رہنماء نیلسن مینڈیلا سائوتھ افریکہ کے رائل خاندان کے چشم و چراغ تھے اور ملک کی بہترین یونیورسٹی سے لاء کی ڈگری حاصل کی اس سیاسی رہنماء نے ستائس برس قید میں گزارے اور 95برس کی عمر میں فوت ہوئے۔ اگر بات ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی کریں تو وہاں بھی سیاسی قیدیوں کی ایک لمبی کہانی ہے ۔
اپنے پیارے وطن پاکستان کی اگر بات کریں تو یہاں سیاسی قیدیوں کا ایک نہ ختم ہونیوالا سلسلہ ہے قیام پاکستان سے شروع ہوتاہے اور آج تک جاری و ساری ہے ۔ آمر کے دور میں تو سیاست دانوں کو قید و بند کی سعوبتیں دینا عام سی بات ہے تاہم جمہوریت کے پھنے خان بھی اپنی حکومت کے دوام کیلئے اپنے مخالفین کو جیل کی یاتراکرواتے رہے ہیں ۔ ماضی قریب کے مشہور و معروف بلکہ عوامی سیاست دان شیخ رشید احمد تو جیل کو اپنا سسرال قرار دیتے رہے ہیں وہ الگ بات ہے کہ آج کل بوڑھے ہوچکے ہیں لہٰذہ اب کچھ احتیاط کرتے ہیں اور جیل کی بجائے گھر میں ہیں۔ اگر پختونخوا کی بات کی جائے تو خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان نے ساری عمر پختون قوم کیلئے کام کیا ، علی گڑھ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے، سرحدی گاندی اور خدائی خدمت گار کے اعزازات سے نوازے گئے۔ انہوں نے نصف صدی تک قیدمیں گزاری یعنی آدھی زندگی قیدوبند میں گزاری اور 97برس کی عمر میں اس دنیا سے چلے گئے۔ وہ پاکستان بننے
سے پہلے بھی آزادی کی جدوجہد میں حصہ لینے کی وجہ سے قید میں رہے اور اپنا وطن بن جانے کے بعد پاکستان میں بھی قید میں رہے۔ 1956ء میں فیلڈمارشل ایوب خان کے آمریت کے دورمیں ون یونٹ کی مخالفت کے جرم میں پابند سلاسل کردیئے گئے۔ 1973ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری حکومت میں بھی قید رہے ۔ پھر اسی کی دھائی میں گھر میں ہی نظر بند کردیئے گئے اور 1982ء میں گھر میں نظر بندی کے دوران فوت ہوگئے۔ اگر پاکستان کی سیاسی انتقام کی تاریخ دیکھی جائے تو یہ دونوں بڑی پارٹیاں اپنے دور اقتدار میں اپنے مخالف کو قیدمیں رکھتے رہیں ہیں۔ موجودہ صدر پاکستان اور پاکستان پیپلز پارٹی کے کو چیئرمین آصف علی زرداری کی مشہور زمانہ گیارہ سالہ قیدبھی مسلم لیگ ن کے دور اقتدار میں ہوئی ۔ متحدہ قومی موئومنٹ کے عہدیداران بھی سیاسی قیدی رہے،بلکہ اگر یوں کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کہ ساری کی ساری پاکستانی سیاسی پارٹیوں کے رہنماء کبھی بہ کبھی سیاسی قیدی رہے ہیں۔ ان میں مردسیاست دانوں کیساتھ ساتھ ان کے گھر کے دیگر افراد کے علاوہ عورتوں کو بھی سیاسی قید میں رکھا گیا۔ لہٰذہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنمائوں کو اگر سیاسی قید کا سامنا ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ۔ پی ٹی آئی کی قیادت کو
سیاستدان ہونے کا ثبوت دینا ہے کہ سیاست دان اپنے صبر و تحمل اور تدبر کیساتھ سیاسی معاملات کو حل کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔دوسری طرف حکومت میں بھی پرانے سیاست دان بیٹھے ہیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے ایسے حالات دیکھے ہیں اور سیاسی قید بھی گزاری ہے لہٰذہ حکومتی سیاست دانوں سے بھی اسی سیاسی برداشت اور تدبیروں کی امید ہے۔
سیاسی تدبر کی ایک مثال باچا خان کی قید کے دنوں میں ان کے فرزند خان عبدالولی خان نے عوامی نیشنل پارٹی کے پلیٹ فارم پر اس وقت کے سیاسی و جمہوری رہنماء زولفقار علی بھٹو کی حکومت کیخلاف راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک احتجاج کیا جس میں حکومت کی طرف سے فورسز کو گولی چلانے کا حکم ملا، تقریباً 7 لوگ شہید ہوئے اور 75 پختون گھائل ہوئے۔ ولی خان بھی سٹیج پر کھڑے تھے ان کے باڑی گارڈز کو گولیاں لگیں اور وہ اپنے لیڈر کی جان بچاتے ہوئے شہید ہو گئے۔ نڈر لیڈر اپنے جانثاروں کی لاشوں کو چھوڑ کر پشاور واپس نہیں آگئے بلکہ آخری شہید تک کی لاش تک وہاں رہے اور پھر ان شہداء کیساتھ وطن واپس آئے جبکہ آج کے احتجاج کرنے والے اپنے وورکروں اور بلخصوص شہید بچوں کو اسلام آباد کے مختلف ہسپتالوں میں بے یار و مددگار چھوڑکر پشاور صحیح سلامت پہنچ گئے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پختون روایت کو زندہ رکھتے ہوئے اپنے جانثار شہداء کو اپنے ساتھ لائے بغیر واپس نہ آتے۔
Load/Hide Comments