حالیہ برسوں میں پشاور اور صوبہ کے دیگر شہروں میں بدمعاشی کلچر فروغ پا رہا ہے ۔ دیکھا جائے تو دنیا ترقی کررہی ہے مہذب ہورہی ہے ، دنیا میں قانون کی پاسداری کو ممکن بنایا جارہا ہے ۔ دنیا کے شہری قانون پر عمل پیر اہورہے ہیں ۔ لیکن ہمارے صوبہ میں اس کے الٹ ہورہا ہے ۔ اس کی بڑی وجہ یہاں قانون کا عملی نفاذ نہ ہونا اور کمزور ترین اور پیچیدہ عدالتی نظام ہے جس کا فائدہ ہر بدمعاش اٹھاتا ہے ۔ جو لوگ اس صوبہ میں سیاست میںا تے ہیں ایم این اے ، ایم پی اے اور لوکل باڈیز میں وہ اپنے دور اقتدار میں اپنے آپ کو کلی طور پر قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں اور ان کو اور ان کے کارندوں کو قانون ہاتھ نہیں لگاتی ۔ لیکن ان کی یہ عادات اتنی پختہ ہوچکی ہوتی ہیں کہ وہ جب اقتدار میں نہیں بھی ہوتے تو وہ اس کے بعد بھی بدمعاشی کے اس روئیے کو جاری وساری رکھتے ہیں یوں اب یہ فیشن بن چکا ہے کہ یہ افراد سرکاری کاموںمیں سرعام مداخلت کرتے ہیں ۔ سرکاری نوکروں کی بے عزتی کرتے ہیں اور بازاروں میں تجارت کرنیوالوں کو بھی ڈراتے دھمکاتے رہتے ہیں ۔ یہ اس پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ اپنے اس غیر قانونی عمل کی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر بھی شیئر کرتے ہیں ۔ جس یہ کلچر مزید فروغ پارہا ہے ۔ اس کلچر کی وجہ سے تمام غیر قانونی کام کرنیوالے اور لچے لفنگے ان کا ساتھ دینا شروع کردیتے ہیں یا پھر گینگ بنا لیتے ہیں ۔ یہی صورتحال کسی زمانے میں کہتے ہیں کہ چین میں ہوا کرتی تھی ۔ جب اسی کی دہائی میں چین اصلاحات کی طرف آیا تو سب سے پہلے کام چین میں یہ کیا گیا کہ اس طرح کے قانون ہاتھ میں لینے والوں کو سخت ترین سزائیںدی جانے لگیں اور چند ہی برسوں میں چین میں یہ غنڈا گردی ختم ہوگئی اور چین میں ترقی کا دور شروع ہوگیا ۔ قانون بنایا ہی اس لئے جاتا ہے کہ اس پر عمل درآمد ہو اور اس کو نافذ کرنیوالے اس کی راہ میں روکاٹ بننے والے ہر شخص اور گروہ سے سختی کرتے ہیں تب کہیں جاکر وہ قانون کو نافذ کرسکتے ہیں ۔ دنیا بھر کی عدالتیں اس سلسلے میں سخت رؤیہ اختیار کرتی ہیں اور انہیں عدالت کی آڑ میں ایسے کسی کام کی اجازت نہیں دیتیں ۔ سننے میں آیا ہے کہ پشاور شہر سے بہت بڑی تعداد میں افراد نقل مکانی کرکے اسلام آباد اور اس کے مضافات میں منتقل ہورہے ہیں ۔ جس کی سب سے بڑی پشاور میں بدمعاشی کلچر ہے ۔ پشاور میں بدمعاشی کلچر کے علاوہ بھتہ خوری کا بھی سلسلہ بھی بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے یہاں تجارت کرنیوالے اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتے اور یہاں سے نقل مکانی کررہے ہیں ۔ پاکستان بھر میں سیاسی جماعتوں کا کوئی ایسا ضابطۂ اخلاق نہیں ہے جس کے ذریعہ کوئی بھی سیاسی پارٹی اپنے عہدہ داروں اور کارندوں کو قانون ہاتھ میں لینے سے روکے بلکہ جو قانون کو ہاتھ میں لیتا ہے وہ ہیرو بن جاتا ہے اور کی ویلیو اس پارٹی میں بڑھ جاتی ہے ۔ اس بدمعاشی کلچر نے شہر میں متوازی عدالتی نظام بھی جرگوں کی شکل میں قائم کرلیا ہے ۔ جس میں یہ لوگ کسی قضیہ کا فیصلہ کرنے کیلئے فریقین سے اختیار لیکر فیصلے کردیتے ہیں اوراس عمل کیلئے ان سے بہت بھاری رقم بھی وصول کرتے ہیں اور جو بھی فیصلہ یہ کریں چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو اس پر عمل درآمد بھی کرواتے ہیں ۔ خصوصاً گاڑیوں ، لین دین ، زمینوں ، پلاٹوں ، مکانوں اور دکانوں کے معاملہ میں نوے فیصد فیصلے یہ لوگ کررہے ہیں ۔ جس سے ایک متوازی عدالتی نظام جسے قانونی حیثیت تو حاصل نہیں ہوتی ہر گلی اور شہر کے ہر کونے میں عملاًکام کررہا ہے ۔ اگر دنیا کی سماجی ترقی کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ دنیا بھر میں ترقی ان اقوام نے کی ہے جہاں انصاف حکومت دیتی ہے اور بروقت دیتی ہے اور جہاں قانون پر عمل درآمد سخت سے سخت ترین طریقوں سے عمل میں لایا جاتا ہے ۔ جن معاشروں میں شہر
کے بدمعاش بجلی خود بند کریں اور کھولیں ، سڑکیں خود بلاک کریں اور کھولیں ، سرکاری دفتروں میں روزانہ جاکر گالی گلوچ اور مار پیٹ کریں اور قانون ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے تو ان معاشروں میں ترقی ، تجارت اور سکون ختم ہوجاتا ہے ایسے میں وہ لوگ جو اسطاعت رکھتے ہیں وہ وہاں سے ہجرت کرتے ہیں اور جو غریب ہجرت کی اسطاعت نہیں رکھتے وہ بلاآخران کہے ہوئے کو فرض مان لیتے ہیں اور ان کیء ہمنوا بن کر ان کی اس بدمعاشی میں شامل ہوجاتے ہیں ۔ شہروں میں قانون ہوتا ہے تو اس لئے وہ شہر کہلاتے ہیں ۔ قانون کی عملداری ختم ہوجائے تو یہ شہر پھر جنگل بن جاتے ہیں ۔ پشاور شہر جنگل بننے کی راہ پر چل پڑا ہے ۔ اس لئے ارباب اختیار سے گزار ش ہے کہ وہ ان خودساختہ بدمعاشوں کیخلاف کاروائیوں کا آغاز کریں اور جو کوئی بھی غیر قانونی کام کرکے اسے سوشل میڈیا پر ڈالے ا سے پابند سلاسل کرکے اس ٹرینڈ کو روکا جائے ورنہ اس شہر میں اتنے بعدبدمعاش بن جائیں گے کہ ان کا شمار ممکن نہ ہوسکے گا ۔ یہ سب آئے دن کے احتجاجوں اور جلوسوں سے بھی پروان چڑ ھ رہا ہے ۔جلسے اور جلوسوں میں یہ بے روزگار اور بدمعاش ٹائپ لوگ رغبت سے شرکت کرتے ہیں اور مارچوں میں سمگلروں کی چاندی ہوجاتی ہے وہ ان مارچوں اور جلوسوں کی شکل میں اپنے دھندے کوبلا روک ٹوک فروغ دیتے ہیں ۔ اس صوبہ میں صنعتیں ختم ہوگئی ہیں اور کاروبار بند ہورہے ہیں ۔ اگر یہاں ترقی دیکھنی ہے تو اس کیلئے عملی کام کرنے
ہوں گے اور یہاں کے لوگوں کو روزگار دینا ہوگا ۔ جو زیادہ
مشکل کام نہیں ہے بس یہاں سے بدمعاشی کلچر ختم کردیں ، بھتہ خوری روک دیں اور سرمایہ کاری کرنے والوں کو تحفظ فراہم کریں تو لوگ یہاں سرمایہ کاری کریں گے جس کے نتیجے میں یہاں لوگوں کو روزگار دستیاب ہوگا ۔پشاور شہر کے مضافات میں قانون کی عملداری نہ ہونے کے برابر ہے ۔ ان دیہات میں جو طاقتور ہے وہ قانون ہے اور وہ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے ۔جس کی وجہ سے اب آہستہ آہستہ یہ سلسلہ شہر کے اندر بھی آرہا ہے ۔ حیات آباد جیسا پوش علاقہ اب قابل رہائش نہیں رہا ہے اس سے لوگ ہجرت کرکے دوسرے محفوظ علاقوں میں جارہے ہیں ۔ پشاور شہر کی بڑی اہمیت ہے ۔ یہ صوبہ کادرالخلافہ ہے ، یہ صوبہ کا سب سے بڑا تجارتی مرکز ہے ۔یہاں شہری لوازمات اور خصوصیات موجود ہیں ۔ سہولتیں بھی موجو د ہیں ، یہاں ہوائی اڈہ بھی ہے اور ریلولے کا نظام بھی ہے ۔ بڑے بڑے ہسپتال اور تعلیمی ادارے بھی ہیں ۔ ہائی کورٹ یہاں پر ہے اور اس شہر میں گنے چنے کارخانے بھی ہیں ۔ افغانستان جانے کیلئے بھی اس شہر کا استعمال ہوتا ہے ۔ اس لئے یہاں کے مسائل پورے صوبہ پر اثر انداز ہوتے ہیں اور یہاں جو ٹرینڈ چلتا ہے وہ پورے صوبہ میں پھیل جاتا ہے ۔ اس لئے جو کلچر یہاں بن رہا ہے کہ ہر ناظم ، سابقہ ناظم یا کونسلر جاکر بجلی بند کردیتا ہے یا روڈ پر سرکاری کاموں کو بند کردیتا ہے یا دفاتر میں جاکر کار سرکار میں مداخلت کرتا ہے اس روش کی حوصلہ شکنی ہونی چاہئیے اور ان تمام لوگوں کو پابند کیا جانا چاہئیے کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لینے کی جگہ اگر شکایت کرنا کا عمل شروع کریں اور متعلقہ ادارے اس شکایت پر کام کریں اگر شکایت جائز ہے تو اس کا ازالہ کیا جائے اور اگر جائز نہیں ہے تو شکایت کرنیوالے کیخلاف کارروائی کی جائے تو شہر میں یہ بدمعاشی کلچر کسی حد تک کم ہوسکتا ہے اور عدالتوں سے بھی گزارش ہے کہ وہ اپنے نظام کو سہل آسان اور فوری بنائیں تو بھی بہت سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔
Load/Hide Comments