آج صبح حسب معمول آپنے دفتر میں بیٹھا فائلیں نمٹا رہا تھا کہ ایسے میں خیال آیا کہ یاروں کی محفل سجائی جائے،ویسے تو ہم یار دوست تقریبا ہر ہفتے ہی ملنے کا موقع نکال لیتے ہیں مگر سردیوں میں محفلوں کا لطف اور دورانیہ بڑھ جاتا ہے ۔ہم سب برادرم اکھٹے ہو کر مختلف موضوعات پر گپ شپ چلتی رہتی ہے یہ دس بارہ دوستوں کی محفل ہوتی ہے جس میں شاعری،ادب،مذہب، سیاست،ہلتھ، سماج،اور صحافت سمیت ہر موضوع پر گپ شپ ہوتی ہے، آج جس موضوع کو زیر بحث لانے کا موقع ملا وہ حال ہی میں پیش آنے والا ایک مجبور باپ کی کہانی جس کا بیٹا روز روز اس کے ساتھ ایسے بات کر رہا تھا جیسے خود ہی سے مخاطب ہو،اور اپنے والد کو سمجھا رہا ہے کہ یہاں پورا مہینہ گدھوں کی طرح کام کرو تو پھر بڑی مشکل سے باورچی خانہ چلتا ہے میں نے بس سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے آپ بس انگوٹھا لگائیں،اس تھوڑی سی زمین کے بدلے کء ایکڑ لے کر دے دوں گا،والد بیچارہ بار بار سمجھا رہا ہے کہ بیٹا باہر کے ملکوں میں بھی آج کل بس یہاں والا ہی حال ہے۔وہاں پڑھے لکھے لوگوں کو بڑی مشکل سے نوکریاں ملتی ہیں تو نے تو پاس بھی آٹھ جماعتیں ہی کی ہیں تجھے بھلا کون نوکری دے گا؟ بیٹے نے کہا سب جلتے ہیں،سب ڈرامے ہیں بس کسی اور کی کامیابی برداشت نہیں ہوتی ان لوگوں سے۔والد صاحب نے بار بار سمجھایا کہ تیری اور تیری بہن کی شادی کرنے کے بعد ہی بس تھوڑی بہت زمین بچی ہے،عزت سے اچھی بھلی دو وقت کی روٹی مل رہی ہے تو کیا ضرورت پڑی ہے جان جوکھوں میں ڈال کر باہر جانے کی؟ ہمیں نہیں چاہیئے تیرے ڈالر،اوپر سے تو جا بھی غیر قانونی رہا ہے۔چونکہ والد والد ہوتا ہے بار بار سمجھایا کہ بیٹا وہاں جاکر بھی تو تونے کام ہی کرنا ہے یہیں کرتا رہے پر نافرمان بیٹے نے بولا آپ صرف آپنی زمین نہ بیچنے کے لئے یہ سب کہہ رہیہیں نا،چلیں رکھ لیں یہ زمین اپنے پاس میں کوئی اور حساب لگا کر چلا جائوں گا۔باپ بار بار سمجھا رہا تھا کہ بیٹے زمین کی کس کمبخت کو پروا ہے مجھے تو تیری فکر ہے ایسا کر تو یہ زمین بیچ لے جو پیسے ایجنٹ کو دینے ہیں اس سے یہیں پر کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کرلے اور ساتھ یہ بھی کہا کہ تیرا دل نہیں کانپے گا ان معصوموں کو اکیلا چھوڑ کر جاتے ہوئے ۔ باپ نے لاکھ سمجھانے کی کوشش کی مگر بیٹے پر نہ تو والد کی کسی دلیل کا اثر ہوا اور نہ ہی امی کے آنسوں کا۔زمین بک گء اور وہ ایجنٹ کو طے شدہ رقم ایڈوانس دے کر یورپ کے لیے چل پڑا۔بلوچستان پہنچنے تک تو وہ خود ہی فون کرکے گھر والوں کو اپنی خیریت کی اطلاع دیتا رہا،بعد میں چند دن تک اس کی خیریت کی اطلاع ایجنٹوں کے ذریعے ملتی رہی مگر پھر یہ سلسلہ رک گیا۔اب گھر والے اس انتظار میں بیٹھے تھے کہ وہ کب یورپ پہنچ کر فون کرے گا اور خیر خیریت سے پہنچ جانے کی اطلاع دے گا۔اخر کار ان کی کال آہی گئی میں خیریت سے پہنچ گیا ہوں یورپ،اپ باقی پیسے بھی دے دیں میں بعد میں فون کروں گا یہاں کال بہت مہنگی ہے،بس اتنی سی بات کرکے اس نے کال کاٹ دی۔شام کو ایجنٹ آکر باقی کی رقم بھی لے گیا ،اب سارے گھر والے اس کی دوسری کال کے انتظار میں تھے مگر انتظار انتظار ہی رہا۔ابھی یہ انتظار نہ جانے اور کتنا طویل ہوتا اگر کچھ دن بعد پولیس والے ان کی گولیوں سے چھلنی لاش لے کر گاں نہ پہنچتے۔جسے گھر والے یورپ میں سمجھے بیٹھے تھے وہ بیچارہ تو پاکستان کا بارڈر کراس کرنے سے پہلے ہی قتل کرکے ویرانے میں پھینک دیا گیا تھا۔اصل میں وہ بڑے پیشہ ور لوگ ہوتے ہیں ڈرا دھمکا کر ایسی کالیں کروانا تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔اس طرح کے کئی جوان ہیں جن کی میتیں سرد خانوں میں پڑی ہیں مگر ان کے وارثوں کا پتہ نہیں رہا ۔والد تابوت سے لپٹ کر دھاڑیں مار مار رو رہے تھے کہ بیٹا تجھے سمجھایا تھا ہمیں نہیں چاہیئے لاکھوں روپے مگر تو نے نہیں سنی اب دیکھ ہمارا حال،کیسے بے سہارا ہوکر رہ گئے ہیں ۔مجھے آپنے ملک سے محبت ہے آپ کو بھی ہوگی۔جب کوئی ہم سے پوچھتا تھا کہ بڑے ہوکر کیا بنوگے تو ہم کہتے تھے ڈاکٹر ،انجینئر، پائلٹ وغیرہ وغیرہ لیکن ان سب میں کہیں بھی یہ بات نہیں آتی تھی کہ میں بڑا ہوکر ملک سے باہر جاں گا اور وہاں سیٹل ہو جاں گا،ایسا کبھی لگتا ہی نہیں تھا کہ ایسا بھی سوچنا پڑے گا بلکہ اس وقت تو یہ یقین بھی ہوتا تھا کہ جہاں جس گھر میں،جس محلے میں یا شہر میں پیدا ہوئے ہیں یہیں ساری عمر رہیں گے اور یہیں مریں گے۔زندگی میں سب سے پہلی حیرت کا سامنا تب ہوتا ہے جب وہ گھر،محلہ یا شہر چھوڑنا پڑجائے۔کتنا ہی عرصہ تو پرانی جگہ کی عادتیں نہیں جاتیں اور نئی جگہ ایڈجسٹ نہیں ہوپاتے پھر پوری عمر کئی ایسی ہجرتوں سے واسطہ پڑتا رہتا ہے جن میں سے اکثر من چاہی نہیں ہوتیں،اب سوال یہ ہے کہ جب آپنا گھر،ملک اس قدر عزیز ہوتے ہیں تو کوئی کیوں انہیں چھوڑ جاتا ہے یہ اور ایسے بہت سے سوال ذہن میں کلبلاتے ہیں لیکن پوچھے اس لیے نہیں جاتے کہ ان کے جواب ہم بھی جانتے ہیں۔ملک کی حالت دگرگوں ہوتی جارہی ہے ہر شعبہ بے لگام ہے جس کے پاس پیسہ ہے وہ ہر طرح کی سہولت حاصل کرلیتا ہے جس کے پاس نہیں ہے وہ اپنے بجلی کے بل کے ہاتھوں پریشان ہوکر خودکشی کرنے کی حد تک چلا جاتا ہے۔ایسے میں قانونی اور غیر قانونی طریقوں سے ملک سے باہر جانے کی کوشش کرنے والوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ بھی ملک کی کرتا دھرتا طاقتوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔میں ملک کے اربابِ اختیار سے درخواست کرتا ہوں کہ اس ارض پاک کو رہنے اور جینے کے قابل رہنے دو۔