سب ستارے ہی نحوست بھر ے اعداد سمیت

آخری پتے کو تاش کے کھیل میں ٹرمپ کاڈ کہتے ہیں اور شاطر کھلاڑی کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ ٹرمپ کارڈ کو سنبھالے رکھے بلکہ نہایت مہارت اور چالاکی سے ٹرمپ کارڈ کا استعمال کرکے بازی پلٹ دے کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر کھلاڑی واقع ماہر ہو تواس کے پاس کوئی بھی کا م کا پتا نہ ہونے کے باوجود محض مقابل کے ساتھ نفسیاتی حربے استعمال کرتے ہوئے اسے شکست پر مجبور کر دیتا ہے، اسے ”بلف”(Bluff) کہتے ہیں وہ اتنی خوبصورتی اور اعتماد کے ساتھ چالیں چلتا ہے کہ مدمقابل اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ ہو نہ ہو ، سامنے والے کے پاس تین یکے ہیں اس لئے وہ گھبرا کراور یہ سوچتے ہوئے کہ مسلسل چالیں چلتے ہوئے کہیں وہ ہار ہی نہ جائے اس لئے ازخود ہی پسپائی اختیار کرتے ہوئے گیم چھوڑ دیتا ہے اور بزعم خود زیادہ نقصان سے بچ جاتا ہے ، تاہم کچھ حوصلہ مند ایسی صورتحال سے دوچار ہوجاتے ہیں تو وہ مکمل ”انہدام” قبول نہیں کرتے اور بلف ماسٹر کوآخری چال چلتے ہوئے اس کے پتے شوکرنے کو کہتا ہے ، یہاں اگر سامنے والا گڑ بڑا جائے تواپنے پتے شو کرنے کی غلطی کرکے ہارمان جاتا ہے لیکن بلف ماسٹر واقعی ہوشیار اور پراعتماد ہو تو وہ نہایت چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہار تو قبول کرلیتا ہے مگر اپنے پتے شو نہیں کرتا بلکہ انہیں تاش کی گڈی میں شامل کرکے پتے پھینٹ کر ہزیمت سے خود کو بچا لیتا ہے اس سے مدمقابل پر اس کے پتوں کی حقیقت کھلنے نہیں پاتی ، ناز مضطر آبادی نے ایسی صورتحال کے حوالے سے کہا ہے
بساط وقت پہ جو کھیلنا تھی جم کے مجھے
وہ بازی ہار گیا تھا میں پہلے دائو میں
بساط سیاست پر مسلسل مات کھانے کے بعداب پھر ایک نئے بیانئے میں پناہ ڈھونڈنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور اسلام آباد پر حالہی میں کئے جانے والے اس یلغار کی شکست کے بعد جسے فائنل کال کانام دیاگیاتھا ، ایک اور بیانیہ آخری پتے کے نام سے سامنے آیا ہے یعنی اب”ٹرمپ کارڈ ”کھیلنے کی باتیں کی جارہی ہیں ، حالانکہ جس”ٹرمپ” کے ساتھ امیدیں وابستہ کی جارہی ہیں اس ٹرمپ نے پہلے بھی آخری پتا کھیلنے والے کے ساتھ کھیلتے ہوئے اپنا (ٹرمپ) کارڈ موصوف پر آزماتے ہوئے نہ صرف کشمیر کا سودامبینہ طور پر کروا کر ”موگیمبو” یعنی بھارت کے پردھان منتری نریندری مودی کو خوش کیا بلکہ سی پیک منصوبہ بھی غتربود کروایا اب پھراسی”ٹرمپ کارڈ” کو کھیلنے کی تیاری کی جارہی ہے ، اور اسے آخری پتا قرار دیا جارہا ہے ، مگر ٹرمپ کو ایک اخبار نے جو مشورہ دیا ہے وہ بھی خاصا دلچسپ اور چشم کشا ہے یعنی ان مشوروں کے ”انوسار” موصوف کو ہمارے والے ”موصوف” سے دور رہنے کا کہہ دیاگیا ہے کہ ہمارے والے موصوف سے بقول اخبار جتنا کام لینا تھا لے لیاگیا ہے اور اب اس موصوف کی اخبار کے مطابق مزید کوئی ضرورت نہیں رہ گئی اس کا مطلب بالکل واضح ہے کہ جن پہ تکیہ تھا وہی ”پتے” ہوا دینے لگے ویسے بھی جوپتے درختوں سے گرجاتے ہیںانہیں ہوا ادھر سے ادھر بھٹکاتی پھرتی ہے یا پھر وہ لوگوں کی قدموں کے نیچے آکر ”چُرمُر” کی آوازیں دیتے رہتے ہیںاوراپنی بے وقعتی پر نوحہ کناں ہو کر رہ جاتے ہیں ایسی صورتحال میں موصوف جو غلطیوں پرغلطیاں فرما رہے ہیں اس پر تو رانا سعید دوستی کایہ شعر منطبق ہونے میں کوئی شک دکھائی نہیں دیتا کہ
میں ورغلا یا ہوا لڑ رہا ہوں اپنے خلاف
میںاپنے شوق شہادت میں مارا جائوں گا
حالانکہ اب جس آخری پتے کی بات کو ”ٹرمپ کارڈ” کے ساتھ ملایا جا رہا ہے اس میں بھی ایک بار پھر تبدیلی کی خبریں سامنے آرہی ہیں اور ”ٹرمپ کارڈ” کو مبینہ طور پر سول نافرمانی میں بدل دیا گیا ہے گویا ایک بارپھر ”یوٹرن” والا کلیہ استعمال کرنے کی ”اوے شنتا” ہے خدا جانے کس کے مشورے پر ایک بار پھر آخری پتا تبدیل کرلیاگیا ہے اس حوالے سے بھی جون ایلیاء سے رجوع کرنے کی ضرورت پڑ رہی ہے جنہوں نے کہا تھا
علاج یہ ہے کہ مجبور کردیا جائوں
وگر نہ یوں تو کسی کی نہیں سنی میں نے
ادھر پارٹی کے اندر اختلافات کی خلیج وسیع ہونے کی خبریں آرہی ہیں اور خاص طور پر ایک خاتون اور دو مرد رہنمائوں میں ”شہادتوں” کے مسئلے پر گرم گرمی کی اطلاعات نے تہلکہ مچا رکھا ہے پارٹی کے موجودہ چیئرمین سے ایک خاتون رہنماء نے پوچھا کہ انہوں نے صرف بارہ اموات کا بیان کیں دیا گویا چیئرمین نے ”جھوٹ” کیوں نہیں بولا؟ اس سوال پر محترمہ نے چیئرمین اور جنرل سیکرٹری دونوں کی خبر لی جواب میں بے چارے چیئرمین نے کہا کہ میرے پاس اتنے ہی افراد کی موت کی ”مستند”خبر موجود تھی اس لئے میں اس سے زیادہ کا دعویٰ کیسے کر سکتا تھا حالانکہ ایک روز پہلے ہی چیئرمین صاحب نے یہ دعویٰ کیا تھا ان کے پانچ ہزار کارکن لاپتہ ہیں مگر خاتون رہنما اتنے بڑے دعوے پر خوش نہیں ہوئیں جس کو ثابت کرنے کے لئے شاید پارٹی کو جان جوکھم میں ڈالنے کی کٹھنائیوں سے گزرنا پڑے گا۔ اگرچہ پاٹی کارکنوں کی اموات کے حوالے سے جتنے منہ اتنی باتیں والی صورتحال ہے اور متعدد رہنمائوں کے دعوے ایک دوسرے سے الگ الگ دکھائی دیتے ہیں یعنی بقول مرزا داغ دہلوی
کس کا یقین کیجئے ، کس کا یقین نہ کیجئے
لائے ہیں اس کی بزم سے یار خبر الگ الگ
بات تاش کے پتوں کے کھیل سے شروع ہو کر”ٹرمپ کارڈ” تک جا پہنچی جیسے اس کھیل کی زبان میں ”ترپ کا پتا” بھی کہا جاتا ہے جوپہلے تو ”بابا ٹرمپ” کی آمد سے نتھی کیا گیا تھا مگر جب امریکی اخبار نے ٹرمپ کو مشورہ دیتے ہوئے ”موصوف” سے دور رہنے کا کہہ دیا ہے تو اب ایک اور یوٹرن لیتے ہوئے آخری پتا سول نافرمانی کی صورت میں موصوف کے حوالے سے ہی فلوٹ کردیا ہے تاہم ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس قسم کی خبریں خود اپنی حمایت کے اندر سرایت کرنے والے خوف پر قابوپانے کے لئے پھیلائی جارہی ہیں جبکہ ہمیں تو یہ سانپ اور سیڑھی کا کھیل لگ رہا ہے جس کی بساط پر ننانوے کے ہندسے کے خانے میں جو اژدھا موجود ہوتا ہے وہ گوٹ کو ہڑپ کرکے نیچے پہنچا دیتا ہے گویا زمین پر پٹخ دیتا ہے اس پر مزید کچھ تبصرہ ہم کیوں کریں کچھ آپ بھی تو سوچ لیا کریں بقول کومل جوئیہ
جوتشی کوئی الٹ پھیر کا حل ہے کہ نہیں
سب ستارے ہیں نحوست بھرے اعداد سمیت

مزید پڑھیں:  جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں