قدرتی وسائل کی قدر کیجئے

پارلیمانی جمہوری ممالک میں حکومت کا تبدیل ہونا معمول کی کارروائی قرار دی جاتی ہے، عوام کو کان و کان خبر ہوئے بغیر اقتدار کا ہما ایک سر سے اڑ کر دوسرے پر جا بیٹھتا ہے۔،اقتدار سے محروم ہونیوالا خفت محسوس کرتا ہے اور نہ ہی عنان حکومت سنبھالنے والا فتح کا جشن مناتا ہے، دونوں فریق اپنی نئی حیثیتوں کے مطابق ملک وقوم کی بھلائی کیلئے اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں، ان ممالک میں سیاسی پارٹیاں ادارے کی حیثیت رکھتی ہیں، افراد کا آنا جانا کوئی اہمیت نہیں رکھتا، ہر پارٹی کا اپنا منشور ہوتا ہے، الیکشن کے بعد اقتدار ملنے پر وہ اپنے منشور پر عملدرآمد کرنے کی اخلاقی اور قانونی طور پر پابند ہوتی ہے۔ مملکت خداداد میں جمہوریت ابھی اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا سیکھ رہی ہے، یہاں سیاسی پارٹیاں ابھی ادارے کی شکل اختیار نہیں کر سکیں، ہمارے ہاں آئینی مدت مکمل ہونے سے پہلے سرکار کا بدلنا کوئی غیر معمولی کاروائی لگتی ہے، گزشتہ سال حکومت وقت سے پہلے بدل گئی، اس کیساتھ ہی سیاسی پارہ اپنی انتہا کو چھونے لگا، یہ سیاسی درجہ حرارت اتنا بلند ہو گیا کہ لوگ کرہ ارض پر ہونیوالی گرمی کی حدت محسوس ہی نہ کر سکے، اپریل اور پھر خاص کر مئی میں سورج سوا نیزے پر آ گیا، ایک روز بلا کی گرمی پڑی، اس روز بھارت کے شہر باندرہ کا درجہ حرارت (49 سینٹی گریڈ) ریکارڈ کیا گیا، اس گرمی کا اثر پاکستان کے ٹھنڈے علاقوں پر بھی پڑا،سلیمان رینج جنوبی ہندو کش سلسلے کا تسلسل ہے، یہ پاک افغان سرحد کیساتھ ساتھ چلتا ہے، افغانستان کے صوبے زابل ،کندھار اور لویہ پکتیا اس کیساتھ منسلک ہیں،پاکستان کے دو صوبے خیبرپختونخوا اور بلوچستان اس پہاڑی سلسلے کیساتھ واقع ہیں، کوہ سلیمان کی سب سے اونچی چوٹی تخت سلیمان کہلاتی ہے، سطح سمندر سے اس کی بلندی 3487 میٹر (11440 فٹ) ہے،کوہ سلیمان ایک نہایت سرسبز و شاداب علاقہ ہے، یہاں بارشیں تو بہت زیادہ ہوتی ہیں لیکن برفباری انتہائی کم، یہی آب و ہوا خشک میوہ جات کی کاشت کیلئے نہایت موزوں ہے، بلوچستان سے ملحق شیرانی ضلع میں چلغوزوں کا بہت بڑا جنگل ہے، اس جنگل کا رقبہ تقریباً 149 مربع کلومیٹر ہے،یہ غالباً دنیا کا سب سے بڑا چلغوزوں کا جنگل ہے، یاد رہے کہ چلغوزوں کا درخت سطح سمندر سے 1800 ـ3350 میٹر بلندی پر پایا جاتا ہے، ایک درخت کی بلندی 10ـ25 میٹر اور عمر 125ـ345 سال ہوتی ہے، اس جنگل سے گزشتہ سال تقریباً ساڑھے چھ لاکھ ٹن چلغوزہ حاصل کیا گیا، یہ دنیا میں پیدا ہونیوالے چلغوزے کا 18 فیصد ہے۔چلغوزہ دنیا کا مہنگا ترین ڈرائی فروٹ ہے، چند سال پہلے اس کی قیمت 10 ہزار روپے فی کلو تھی، گزشتہ سال یہ قیمت کم ہو کر 6 ہزار روپے فی کلو تک آ گئی، اس کے باوجود یہ عام آدمی کی قوت خرید سے باہر تھی، میدانی علاقوں میں اپنے جلوے دکھانے کے بعد سورج نے اس ٹھنڈے ٹھار علاقے کا رخ کیا، کہا جاتا ہے کہ اتنے زیادہ پارہ سے علاقہ شیرانی کے چلغوزے کے جنگل میں آگ بھڑک اٹھی، یہ غیر معمولی آگ تھی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے 22 کلو میٹر رقبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، مقامی لوگوں نے اس آگ کو بجھانے کی سر توڑ کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے، ایمرجنسی ریسکیو ٹیمیں اس علاقے میں ضرور گئیں لیکن نا تجربہ کاری اور ضروری سامان کی کمی آڑے آئی، صوبائی اور وفاقی حکومتیں اس صورت حال کیلئے کبھی بھی تیار نہیں تھیں، اس لئے انہوں نے ہاتھ کھڑا کرنے میں بھلائی جانی، آخر معلوم ہوا کہ پڑوسی برادر اسلامی ملک ایران اس قسم کی صورت حال سے نمٹنا خوب جانتا ہے، جنگل میں لگی آگ کو بجھانے کیلئے ان کے پاس کئی ہوائی جہاز موجود ہیں، یہ خاص طور پر اسی مقصد کیلئے ڈیزائن کیے گئے ہیں، حکومت پاکستان کی درخواست پر ایران نے یہ سروس ہمیں میسر کر دی، اس ایک خصوصی جہاز نے نور خان ایئر بیس سے اڑان بھری، ایک ہی اڑان میں سینکڑوں ٹن پانی کا چھڑکاؤ کیا، چند گھنٹوں کی جہد مسلسل کے بعد آگ بجھانے میں کامیاب ہو گیا، آگ ٹھنڈی ہوئی تو معلوم ہوا کہ چلغوزوں سے مالامال جنگل کا بہت بڑا حصہ جل کر خاکستر ہو گیا ہے، اربوں کا نقصان ہوا ہے، بہت سے قیمتی اور نایاب جانور اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، سوشل میڈیا پر وائرل ہونیوالی چند تصاویر دل ہلا دینے والی تھیں، ایک بارہ سنگھے کے سینگوں میں آگ لگی ہوئی تھی، وہ جان بچانے کیلئے ادھر ادھر بھاگ رہا تھا، آگ بجائے کم ہونے کے اور زیادہ بھڑک رہی تھی،افسوس جان بچانے کی تگ ودو میں وہ اپنی زندگی کی بازی ہار گیا، دوسری تصویر میں ایک گائے اپنے جلے ہوئے کالے سیاہ جسم کیساتھ ملک عدم سدھار گئی ہے، کتنی تکلیف دہ موت تھی اس بے زبان کی، یہاں کی مقامی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزار رہی ہے، ان کا ذریعہ معاش یہی چلغوزے کا جنگل ہے، چلغوزے چننے سے لیکر مارکیٹ تک پہچانے کا کوئی ترقی یافتہ طریقہ کار نہیں ہے، نہ ان کے پاس کوئی مشینری ہین نہ ٹرانسپورٹ اور نہ ہی پکی سڑک۔ یہ مال برداری کے لئے ابھی تک اونٹوں سے کام لیتے ہیں، پگڈنڈیوں پر دن رات سفر کر کے خشک میوہ شہروں تک پہنچاتے ہیں، وہاں کمیشن خور مافیا انہیں برائے نام اجرت دے دیتا ہے، اصل منافع خود رکھ لیتا ہے، ان لوگوں کی ذاتی زندگی بہت تکلیف دہ ہے، یہ علاقہ بنیادی انسانی سہولیات سے محروم ہے، یہاں سکول ،ہسپتال، سڑک، بجلی اور پانی ناپید ہیں، اس دور جدید میں بھی یہ لوگ مریض چارپائی پر دور دراز شہری علاقوں میں علاج کیلئے لے جاتے ہیں۔،حکومت وقت سے درخواست ہے کہ وہ قومی دولت سے مالا مال اس علاقے پر خصوصی توجہ دے، مقامی لوگوں کی طرز زندگی کو آسان بنائے، چلغوزے کی کاشت سے لیکر منڈی تک فراہمی کے عمل کو جدید تقاضوں کے ہم آہنگ کرے، چلغوزہ مہنگا ترین ڈرائی فروٹ ہے، اس کی مانگ میں اضافہ چلغوزہ کی مقبولیت کا غماز ہے، یقین کریں تھوڑی سی توجہ سے مملکت خدادا پاکستان اس فصل سے اربوں روپے کا زرمبادلہ کما سکتی ہے، پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال خطہ ارض ہے، ضرورت ہے کسی درد مند محب وطن کی جو ان قدرتی وسائل کی قدر کرے، اس کے معیار اور مقدار میں اضافہ کرے، ملک وقوم کیلئے بہت سا زر مبادلہ کمائے اور مقامی لوگوں کا معیارِ زندگی بلند کرے۔

مزید پڑھیں:  اپنوں کے جامے میں اغیار