علماء کا موجودہ نظام کو برقرار رکھنے

مدارس رجسٹریشن: علماء کا موجودہ نظام کو برقرار رکھنے کا مطالبہ

ویب ڈیسک: علماء کرام نے مدارس کی رجسٹریشن سے متعلق موجودہ نظام کو برقرار رکھنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کسی دباؤ میں آکر اس نظام کو تبدیل نہ کرے۔
ذرائع کے مطابق مدارس رجسٹریشن کے مثبت اثرات کے عنوان سے اسلام آباد میں منعقد کانفرنس میں ڈائریکٹر جنرل آف ریلیجیس ایجوکیشن غلام قمر، وفاقی وزیر تعلیم خالد مقبول صدیقی اور وفاقی وزیر مذہبی امور چودھری سالک حسین بھی شریک ہوئے کانفرنس کی صدارت مولانا طاہر اشرفی نے کی ۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حافظ طاہر اشرفی کا کہنا تھا پاکستان میں تقریباً تیس لاکھ طلبا مدارس میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ہمارا بہت عرصے سے ایک مطالبہ تھا کہ مدارس کی تعلیم کو حکومتی سطح پہ تسلیم کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ نئے دس بورڈ قائم کیے گئے جو آج بھرپور انداز میں کام کر رہے ہیں، سال 2019 تک ملک میں پانچ مدارس بورڈ تھے جو اس وقت 15 ہو چکے ہیں۔
اس موقع پر وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑنے کہا قانون جب بنتا ہے تو اس کی افادیت دیکھی جاتی ہے سب علما سے مشاورت کے بعد ایک قانون بنا،مدارس کو ایک دارے میں لانا ہمارامقصد تھا، مدارس کو وزارت تعلیم سے منسلک کرنا ہی اس کا بہتر حل ہے۔
وفاقی وزیر تعلیم خالد مقبول صدیقی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مدارس رجسٹریشن کا معاملہ مدارس کو کنٹرول کرنے کا نہیں بلکہ مدارس کو فائدہ پہنچانا اور یہاں کے تعلیمی نظام کو موثر بنانا تھا،3کروڑ بچوں کے مستقبل کا سوال ہے ہم سیاسی دبائو میں نہیں آئیں گے۔
علما کانفرنس سے خطاب میں چیئرمین رویت ہلال کمیٹی مولانا عبد الخبیر آزاد نے کہا کہ آج کا یہ پروگرام مدارس دینیہ اور ان کے تحفظ کے لیے ہو رہا ہے، یہ مدارس دین کے قلعے ہیں اور تمام مسالک کی نمائندگی یہاں موجود ہے۔
مولانا عبدالخبیر آزاد نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں ہم سب اپنا اپنا کردار ادا کریں، مدارس اسلام کے قلعے ہیں، ان کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے، یہاں پر تمام مسالک کے علمائے کرام موجود ہیں،ملک میں اتحاد پیدا کرنے کی ضرورت ہے، ہم سب کو دہشتگردی اور انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے کردار ادا کرنا ہے۔
اجلاس سے خطاب میں ڈائریکٹر جنرل آف ریلیجیئس ایجوکیشن ڈاکٹر غلام قمر نے کہا کہ مدارس کو قومی دھارے میں لایا جائے، مدارس میں اصلاحات کی جائیں، مدارس کو وزارت تعلیم سے منسلک ہونا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ فیصلہ کیا گیا مدارس کو وزارت تعلیم سے منسلک کیا جائے، برصغیر کی تاریخ مدارس کا بڑا کردار ہے، مدارس کی تاریخ صدیوں پرانی ہے،تمام مکتب فکرکے علما سے مشاورت کی، مختلف ادوار میں مدارس کو مشکلات کا سامنا رہا، یہ وہ معاہدہ تھا جس پر تمام علما کے دستخط ہیں، متفقہ طور پر طے ہوا کہ مدارس کو قومی دھارے میں لایا جائے، ان بچوں کو روزگار ملے تاکہ معاشرے کے اچھی شہری بنیں۔
سید جواد علی نقوی نے کہا کہ ملک اس وقت بحرانوں کا شکار ہے، مدارس کے لیے حکومت کی طرف سے کوئی چارہ جوئی نہیں ہوئی، مدارس کو اپنے حال پر چھوڑا گیا، حکومت کا زیرو کردار ہے مدارس بنانے میں، سب لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت مدارس بنائے،مدارس کو آسودگی اور اطمینان کی فضا کی ضرورت ہوتی ہے، مدارس کو باقاعدہ نظام کے تحت لانا خوش آئند اقدام ہے، مدارس کے حوالے سے حکومتی پالیسی طے شدہ ہے، مدارس کو تجارت سے دور رکھیں، مدارس کو دہشتگردی سے دور رکھیں، مدارس کو سیاست سے دور رکھیں، مدارس کوفرقہ واریت سے دوررکھیں۔
انہوں نے کہا کہ اداروں کو سمجھ نہیں آتی تھی مدارس کو کس کھاتے میں ڈالا جائے، مدارس تعلیمی ادارہ ہے، انہیں وزارت تعلیم سے منسلک ہونا چاہئے، مدارس رجسٹریشن پر مولانا فضل الرحمان سے مذاکرات کرنے چاہئیں، رجسٹرڈ مدرسے ابھی بھی سند دیتے ہیں اور حکومت انہیں قبول کرتی ہے، حکومت نے مدرسوں کو اختیار دیا ہے تو ہی وہ سند دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج مدارس اور علما آمنے سامنے آگئے ہیں، ہم ہرگز مدارس کا تصادم نہیں چاہتے، مولانا جذبات میں نہ آئیں علما کرام کو نہ للکاریں۔

مزید پڑھیں:  علی امین گنڈاپور بڑھکیں مارنے کا ماہر ہے، ترجمان جے یو آئی