شام میں مسلح بغاوت کے نتیجے میں بشار الاسد کے 24سالہ جبکہ اسد خاندان کے 54سالہ اقتدار کا سورج غروب ہوگیا ہے ، شامی صدر نے ملک سے فرار ہو کر ماسکو میں سیاسی پناہ لے لی ہے جس کی تصدیق خود روسی حکومت نے کردی ہے اسد خاندان گزشتہ 54سال سے شام میں برسر اقتدار چلا آرہا تھا اور بلا شرکت غیرے آمرانہ طرز حکومت قائم کرکے عوام پر مبینہ طور پر ظلم وجبر کے پہاڑ توڑ رہا تھا ، حکومت کی تبدیلی کے بعد جس طرح وہاں سے خبریں سامنے آرہی ہیں خصوصاً حکومت مخالف عناصر کو ایسے قید خانوں میں رکھا گیاتھا جس نے دوسری جنگ عظیم کے دوران نازی جرمنی کے چانسلر ہٹلر کے عقوبت خانوں کی یاد دلا دی ہے ، ان میں سے بعض قید خانوں سے قیدیوں کو رہا کردیا گیا ہے کیونکہ باغی قیادت نے تمام قیدیوں کی رہائی کاپروانہ جاری کر دیا ہے تاہم بعض ایسے قید خانے یا عقبوت خانے بھی موجود ہیں جن پر اطلاعات کے مطابق پیچیدہ قسم کے ڈیجیٹل تالے پڑے ہوئے ہیں اور ان کو کھول کر قیدیوں کو رہا کرانے کی کوشش جاری ہیں ، ادھر شامی افواج کے کمانڈر عبدالکریم محمود ابراہیم کا ایک اعلان سامنے آیا ہے کہ عوام باغیوں کی من گھڑت افواہوں پر کان نہ دھریں قوم سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ شامی فوج بغاوت پر قابو پانے کے لئے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ فوج نے باغیوں پر شدید حملے کرکے بڑی تعداد میں دہشت گردوں کا صفایا کر دیا ہے ، آرمی چیف کے ان دعوئوں کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوئی تاہم اس ساری صورتحال میں سب سے زیادہ تشویشناک یہ اطلاعات ہیں کہ حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیلی افواج شام کے علاقے میں جیلان کی پہاڑیوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئیں جبکہ اسرائیلی طیاروں نے دارالحکومت دمشق پرفضائی حملے بھی کئے کیونکہ حزب اللہ کے ہزاروں جنگجو بھی شام سے واپس چلے گئے اسی طرح ایران کا سفارتی عملہ بھی مظاہرین کی جانب سے ایرانی سفارتخانے پرحملے سے پہلے شام سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا تھا ، اقوام متحدہ ، امریکہ ، یوکرین ، یورپی ممالک اور مغربی ممالک نے بشار الاسد حکومت کے خاتمے کاخیر مقدم کیا ہے جبکہ عرب ممالک نے محتاط ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاسی عمل کوآگے بڑھانے پر زور دیا ہے امریکہ کا کہنا ہے کہ صدربائیڈن نے بدلتی ہوئی صورتحال پر نظر رکھی ہوئی ہے منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ روس اور ایران کمزور ہوئے ہیں اس لئے وہ بشار الاسد کونہیں بچاپائے ، افغان طالبان نے باغی گروپ کو کامیابی پر مبارکباد پیش کی ترکیہ کا کہنا ہے کہ وہ شام کی سلامتی یقینی بنانے کے لئے مدد دینے کو تیار ہے ، ایران کا کہنا ہے کہ شام کی قسمت کا فیصلہ شامی عوام کو ہی کرنا چاہئے ، تہران حکومت نے شام کے ساتھ مستقبل میں بھی خوشگوار تعلقات برقرار رکھنے کا اظہار بھی کیا ، اردن کے شاہ عبد اللہ دوم نے اتوار کے روز کہا کہ ان کی حکومت”اپنے شامی بھائیوں کے ساتھ کھڑی ہے اور ان کی مرضی اور انتخاب کا احترام کرتی ہے”درایں اثناء اتوار کے روز جرمنی کے شہربرلن اور یورپ کے دیگر شہروں میں ہزاروں پرجوش شامیوں نے ریلیاں نکالیں اور پرچم لہراتے ہوئے صدر بشار الاسد حکومت کے خاتمے کی خوشی میں نعرے لگاتے رہے استنبول میں فتح مسجد کے باہر سینکڑوں لوگوں نے جشن منایا ، ترک شہر میں پانچ لاکھ مضبوط شامی کمیونٹی کے لئے مرکزی علاقوں میں سے ایک ہے ، لندن کے ٹریفلگر سکوائر پر بھی سینکڑوں شامیوں نے اسد حکومت کے خاتمے کا جشن منایا ، اسی طرح دنیا کے اور بھی کئی اہم شہروں میں بشار الاسد حکومت کے خاتمے پر شامیوں نے جشن منا کر اپنے جذبات کا اظہار کیا، امر واقعہ یہ ہے کہ دنیا میں آمریت اگرچہ وقتی طور پر کامیاب ضرور ہوتی ہے کیونکہ ایسی حکومتوں کا سب سے بڑا ہتھیار ظلم و جور ، تشدد ہوتاہے ، بدقسمتی سے شام ، عراق ، لیبیا ، اردن اور دیگر کئی ممالک میں ایک عرصے تک آمرانہ حکومتیں قائم رہیں جن کے ظالمانہ اور سفاکانہ طور طریقوں کی وجہ سے وہاں کے عوام کبھی آزادی کے حوالے سے آواز اٹھانے میں کامیاب نہیں ہو سکے ، اس سلسلے میں بڑی طاقتوں کا ان حکومتوں کی اپنے مفادات کے لئے پشت پناہی ، عوام پر آمرانہ حکومتوں کے تسلط کی بنیاد رہے ہیں ، یہ بڑی طاقتیں ان ممالک میں آمروں کی حمایت اس لئے کرتی ہیں کہ ملک پرمسلط کسی بھی طاقتور گروہ کے ساتھ اپنے مفادات کے لئے بات کرنا ، معاہدے کرنا اور عوام کی مرضی کے خلاف اقدامات اٹھانا زیادہ آسان ، سہل اور فائدہ مند رہتا ہے ، بہ نسبت یہ کہ وہاں پر عوام کے حقیقی منتخب قوتوں کے ساتھ بات کی جائے ، اب بھی اطلاعات یہی ہیں کہ جیسے ہی روس نے بشار الاسد کی سرپرستی چھوڑ دی اس کی حکومت کاخاتمہ ہو گیا ، اس لئے بڑی طاقتوں کے علاوہ ہمسایہ ممالک کو اسد خاندان کی نصف صدی سے بھی زیادہ مدت تک اقتدار کے حوالے سے اپنے کردار پر بھی سوچنا چاہئے تاکہ ظالمانہ جابرانہ حکومتوں کا قیام ممکن نہ رہے ۔