جنگلات کی ”چوری”!

خیبرپختونخوا کے ہزاروں اورملاکنڈ ریجنز میں وسیع پیمانے پر جنگلات کی غیر قانونی کٹائی جسے دیدہ دلیری سے چوری قراردینے میں کوئی امر مانع نہیں ہو سکتا کا انکشاف کوئی نئی بات نہیں ہے جس کے بعد حکومت نے کاٹے گئے ٹمبر کے 100وڈ لاٹس اور 19لاکھ 50 ہزار کیوبک فٹ لکڑی کے حوالے سے اہم فیصلے کئے ہیں ، سیکرٹری کلائمنٹ چینج اینڈ فارسٹری نے تفصیلات پیش کرتے ہوئے جن 100 ٹمبرلاٹس کی تعداد بتائی اس میں صرف 42وڈ لاٹس کو درست اور کلیئر قرار دیا جبکہ 58 وڈ لاٹس کے ٹمبر کاٹنے پر ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی کامطالبہ کیا ، جہاں تک صوبے کے ان علاقوں میں جہاں جنگلات اگتے ہیں درختوں کی کٹائی کا تعلق ہے وہاں سے ملنے والی اطلاعات اکثرٹمبر مافیا اور متعلقہ حکام اوراہلکاروں کی ناکردنیوں کی داستانیں سناتی ہیں ، یہ بات طے ہے کہ جب تک سرکاری عمال سہولت کاری نہ کریں کسی کی مجال تک نہیں ہوسکتی کہ وہ بغیر اجازت اور قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے جنگلات کی بربادی کی داستانیں رقم کریں ، ستم ظریفی یہ ہے کہ جن لوگوں کو 100 درخت کاٹنے کا پروانہ تھمایا جاتا ہے وہ ملی بھگت سے نہ صرف کئی گنا زیادہ درخت کاٹ کر جنگلات کو تباہ کرنے تل جاتے ہیںبلکہ اپنی چوری چھپانے کے لئے وہاں آگ بھی لگا دیتے ہیں تاکہ ان کی چوری پر پردہ پڑ جائے بین ا لاقوامی قانون کے مطابق ایک درخت کی کٹائی کے عوض سولہ نئے پودے کاشت کرنا بھی لازمی ہے مگراس پربھی عمل نہیں کیا جاتا یوں اس ظالمانہ کٹائی سے ماحول کوپہنچنے والے نقصانات کا اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن 58وڈ لاٹس کی غیر قانونی کٹائی پر اب نوحہ پڑھا جارہا ہے ان کی غیر قانونی کٹائی کو روکنے کے لئے بروقت اقدامات کیوں نہیں کئے گئے اور اب جبکہ متعلقہ تمام افراد نے کروڑوں روپے کے قیمتی جنگلات کاٹ کراپنی جیبیں بھر لی ہیں توان کے خلاف کیا تادیبی کارروائی کی جائے گی؟ زیادہ سے زیادہ یہ کہ چند لاکھ روپے جرمانہ عاید کرکے دوبارہ جنگلات پر ”حملہ آور” ہونے کاموقع دے دیا جائے گا یعنی وہی لوگ ایک بار پھر نئے پرمنٹ حاصل کرکے جنگلات کا استحصال شروع کر دیں گے کیا ذمہ داروں کوعبرت کانشانہ بنانے کے لئے کوئی قانون موجود نہیں ہے؟۔

مزید پڑھیں:  اپنوں کے جامے میں اغیار